Al-Quran-al-Kareem - Yunus : 23
فَلَمَّاۤ اَنْجٰىهُمْ اِذَا هُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُكُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ١ۙ مَّتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١٘ ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اَنْجٰىھُمْ : انہیں نجات دیدی اِذَا : اس وقت ھُمْ : وہ يَبْغُوْنَ : سرکشی کرنے لگے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں بَغْيُكُمْ : تمہاری شرارت عَلٰٓي : پر اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں مَّتَاعَ : فائدے الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا ثُمَّ : پھر اِلَيْنَا : ہماری طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا فَنُنَبِّئُكُمْ : پھر ہم بتلادینگے تمہیں بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
پھر جب اس نے انھیں نجات دے دی اچانک وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ اے لوگو ! تمہاری سرکشی تمہاری جانوں ہی پر ہے، دنیا کی زندگی کے فائدے کے لیے، پھر ہماری ہی طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے، تو ہم تمہیں بتائیں گے جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ يَبْغُوْنَ۔۔ : یعنی طوفان سے بچ نکلنے پر پھر وہی ناحق سرکشی اور ظلم شروع کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ مشرکین کے اس رویے کا ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة عنکبوت (65، 66) اور لقمان (32) ہاں، کوئی سعادت مند ہو تو اپنے عہد پر قائم رہتا ہے مگر وہ اتنے کم ہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہیں، جیسا کہ سعد ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن چار مردوں اور دو عورتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ جہاں پائے جائیں قتل کردیے جائیں۔ ان میں سے ایک عکرمہ بن ابوجہل بھی تھے۔ عکرمہ نے یہ سنا تو سمندر کے راستے راہ فرار اختیار کی، لیکن جب سفر شروع ہوا تو کشتی والوں کو تند و تیز ہوا نے آلیا۔ (لوگ اپنے اپنے خداؤں کو پکارنے لگے) کشتی والوں نے کہا : (أَخْلِصُوْا فَإِنَّ آلِھَتَکُمْ لاَ تُغْنِیْ عَنْکُمْ شَیْءًا ھٰھُنَا، فَقَالَ عِکْرِمَۃُ وَاللّٰہِ ! لَءِنْ لَمْ یُنَجِّنِیْ مِنَ الْبَحْرِ إِلاَّ الإِْخْلَاصُ لَا یُنَجِّیْنِیْ فِی الْبَرِّ غَیْرُہٗ ، اَللّٰھُمَّ إِنَّ لَکَ عَلَیَّ عَھْدًا إِنْ أَنْتَ عَافَیْتَنِیْ مِمَّا أَنَا فِیْہِ أَنْ آتِیَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی أَضَعَ یَدِيْ فِيْ فَلَأَجِدَنَّہُ عَفُوًّا کَرِیْمًا فَجَاءَ فَأَسْلَمَ) [ نسائی، تحریم الدم، باب الحکم فی المرتد : 4072، وصححہ الألباني ] ”خالص اللہ کو پکارو، کیونکہ اس وقت یہاں تمہارے (خود ساختہ) معبود تمہارے کچھ کام نہیں آئیں گے۔“ عکرمہ نے (دل میں) کہا : ”اللہ کی قسم ! اگر سمندر میں نجات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات دے سکتی ہے تو پھر خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا، اے اللہ ! اگر تو نے مجھے اس طوفان سے نجات دے دی تو میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ میں محمد ﷺ کے پاس جا کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا، کیونکہ میں انھیں بہت درگزر کرنے والا، مہربان پاتا ہوں۔“ چناچہ وہ آئے اور مسلمان ہوگئے۔“ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ۔۔ : یعنی اس سرکشی کا وبال تمہاری اپنی ہی جانوں پر ہے، اس سے تم کسی اور کو نقصان نہیں پہنچا سکو گے، دنیوی زندگی کا تھوڑا سا فائدہ اٹھا لو، آخر تمہیں ہمارے پاس ہی آنا ہے، پھر ہم تمہیں بتلائیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو، یعنی پھر ہم تمہیں ایسی سزا دیں گے جس سے تمہیں پتا چل جائے گا کہ تم کتنا بھاری ظلم کرتے رہے ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ یُّعَجِّلَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِصَاحِبِہٖ الْعُقُوْبَۃَ فِی الدُّنْیَا مَعَ مَا یَدَّخِرُ لَہٗ فِی الْآخِرَۃِ مِثْلُ الْبَغْيِ وَقَطِیْعَۃِ الرَّحِمِ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب فی النہي عن البغی : 4902، عن أبي بکرۃ ؓ ]”کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا دنیا میں بھی جلدی دے اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اس کی سزا باقی رکھے سوائے ظلم و زیادتی اور قطع رحمی کے۔“
Top