Fi-Zilal-al-Quran - Yunus : 23
فَلَمَّاۤ اَنْجٰىهُمْ اِذَا هُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُكُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ١ۙ مَّتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١٘ ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اَنْجٰىھُمْ : انہیں نجات دیدی اِذَا : اس وقت ھُمْ : وہ يَبْغُوْنَ : سرکشی کرنے لگے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں بَغْيُكُمْ : تمہاری شرارت عَلٰٓي : پر اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں مَّتَاعَ : فائدے الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا ثُمَّ : پھر اِلَيْنَا : ہماری طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا فَنُنَبِّئُكُمْ : پھر ہم بتلادینگے تمہیں بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
مگر جب وہ ان کو بچالیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہوکر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ لوگو ، تمہاری یہ بغاوت تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے۔ دنیا کی زندگی کے چند روزہ مزے ہیں (لوٹ لو) ، پھر ہماری طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے ، اس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو ''۔
فلما انجھم اذاھم یبغون فی الارض بغیر الحق پھر جب اللہ ان کو اس مہلکہ سے بچا لیتا ہے تو فوراً ہی وہ اطراف زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ یعنی اللہ جب ان کی دعا قبول کرلیتا ہے اور طوفان سے رہائی دے دیتا ہے تو یکدم وہ حدود فساد میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اِذَامفاجات کیلئے ہے اور بغی سے مراد ہے اباحت کی حدود سے نکل کر فساد کی طرف بڑھنا۔ بغیر الحق کے لفظ سے یبغون کے مفہوم کی تاکید ہو رہی ہے کیونکہ فساد تو ہوتا ہی ناحق ہے۔ شبہ ہو سکتا تھا کہ مسلمان بھی کافروں کی بستیوں کو تباہ کرتے ‘ ان کی کھیتیوں کو اجاڑتے اور باغوں کو ویران کرتے۔ یہ بھی تو فساد ہے۔ اس شبہ کو دور کرنے کیلئے فرمایا کہ یہ (فساد نما) حرکات جو مسلمان سے سرزد ہوتی ہیں ‘ تخریب کیلئے نہیں ہیں بلکہ ان کی غرض تعمیر اور اصلاح ہوتی ہے۔ ایسا اللہ کے حکم سے کیا جاتا ہے ‘ حدود اباحت سے تجاوز نہیں کیا جاتا۔ یایھا الناس انما بغیکم علی انفسکم اے لوگو ! (سن لو) یہ تمہاری سرکشی تمہارے لئے وبال (جان) ہونے والی ہے۔ ظلم کا برا نتیجہ تمہاری ہی طرف لوٹتا ہے۔ ترمذی و ابن ماجہ نے حسن سند کے ساتھ حضرت عائشہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : حسن سلوک اور اقربا پروری کا اچھا نتیجہ ہر بھلائی سے جلد مل جاتا ہے اور ظلم و قطع رحم کا برا نتیجہ ہر برائی کے نتیجے سے پہلے آجاتا ہے۔ ابو الشیخ ‘ خطیب اور ابن مردویہ نے تفسیر میں حضرت انس کی روایت سے بیان کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : یہ تین چیزیں اپنے کرنے والے پر ہی لوٹ پڑتی ہیں : ظلم ‘ فریب ‘ دغا۔ ابن لالی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اگر پہاڑ ‘ پہاڑ پر ظلم کرے تو ظلم کرنے والا (پہاڑ) پھٹ کر ٹکڑے ہوجائے گا۔ متاع الحیوۃ الدنیا زندگی میں چندے اس سے حظ اٹھا رہے ہو ‘ یعنی عارضی اور فنا پذیر ہے۔ متاع الحیٰوۃ فعل محذوف کا مفعول ہے یا بغیکا۔ ثم الینا مرجعکم پھر (مرنے کے بعد یا قیامت کے دن) تمہاری واپسی ہماری ہی طرف ہوگی۔ فننبئکم بما کنتم تعملون۔ پھر تمہارے اعمال کا بدلہ دے کر ہم تم کو آگاہ کردیں گے (کہ یہ بدلہ فلاں عمل کا ہے) ۔
Top