Al-Quran-al-Kareem - Al-Muminoon : 78
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : وہی جس نے اَنْشَاَ لَكُمُ : بنائے تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) قَلِيْلًا : بہت ہی کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے، بہت کم تم شکر کرتے ہو۔
وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ۔۔ : اس سے پہلے کفار کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ تھا، اب انھیں مخاطب کرکے احسانات یاد دلائے۔ یہ غائب سے مخاطب کی طرف التفات ہے، کیونکہ بعض اوقات وعید کا اثر نہیں ہوتا، ہاں ! کسی احسان کی خوشگوار یاد دل کو مائل کردیتی ہے۔ وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ۔۔ : یعنی وہ لوگ نہ اپنے رب کے لیے جھکے اور نہ عاجزی اختیار کی، حالانکہ رب صرف وہ ہے، کوئی اور نہیں۔ جس نے کسی پہلے نمونے کے بغیر تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل پیدا فرمائے، جو سننے، دیکھنے اور سمجھنے کے مرکز ہیں۔ ان تینوں چیزوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جسم کی تمام نعمتیں ان کے تابع ہیں، یہ نہ ہوں تو کچھ بھی نہیں۔ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ : یہ بات کہ تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو، کئی طرح سمجھی جاسکتی ہے۔ مثلاً سوچو، کوئی آدمی اگر تمہیں یہ تینوں نعمتیں دے اور تم اس کا بدلا دینا چاہو تو کیا دے سکتے ہو ؟ یا اس طرح سوچو کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ تینوں نعمتیں تم سے چھین لے تو تمہارا کیا حال ہوگا ؟ اب جو اس نے یہ سب کچھ تمہیں دے رکھا ہے تو ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے تم اس کی کس قدر فرماں برداری کر رہے ہو ؟ اس سے بڑی ناشکری کیا ہوگی کہ اپنا خالق ومالک مانتے ہوئے اس اکیلے کی عبادت کے بجائے تم نے اس کے شریک بنا رکھے ہیں، جنھوں نے کچھ پیدا ہی نہیں کیا اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بجائے تم اسے جھٹلا رہے ہو ؟ ان حواس کی شکر گزاری تو یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے صحیح راستے کی طرف رہنمائی حاصل کرو، ورنہ ان کے ذریعے سے جسمانی اور مادی خواہش تو دوسرے حیوانات بھی پوری کر رہے ہیں۔ تمہارا حق یہ ہے کہ کائنات میں توحید کے جو دلائل پائے جاتے ہیں ان حواس کے ذریعے سے ان دلائل کو آنکھوں سے دیکھو، کانوں سے سنو اور دل سے سمجھو اور توحیدِ الٰہی پر دل و جان سے ایمان رکھو۔ ”قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ“ کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم شکر کرتے ہی نہیں، کیونکہ عرب ”قَلِیْلٌ“ کو نہ ہونے کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ ابوکبیر ہذلی نے ”تَأَبَّطَ شَرًّا“ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے ؂ قَلِیْلُ التَّشَکِّيْ لِلْمُھِمِّ یُصِیْبُہُ کَثِیْرُ الْھَوٰی شَتَّی النَّوٰی وَ الْمَسَالِکِ ”وہ پیش آنے والی مہمات کی شکایت بہت کم کرنے والا ہے، بہت سے مقاصد والا، مختلف نیتوں اور راستوں والا ہے۔“ ”شکایت بہت کم کرنے والا“ سے مراد یہ ہے کہ وہ شکایت کرتا ہی نہیں۔
Top