Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 54
اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِیْلُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ ہیں لَشِرْذِمَةٌ : ایک جماعت قَلِيْلُوْنَ : تھوڑی سی
کہ بیشک یہ لوگ تو ایک تھوڑی سی جماعت ہیں۔
اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيْلُوْنَ : ”شِرْ ذِمَۃٌ“ چھوٹا سا گروہ، اس نے انھیں مزید حقیر اور بےوقعت بتانے کے لیے ”قَلِيْلُوْنَ“ کے ساتھ تاکید کی، جو جمع قلت کا صیغہ ہے۔ ”هٰٓؤُلَاۗءِ“ کے ساتھ اشارہ بھی حقارت کے اظہار کے لیے ہے کہ یہ لوگ ایک چھوٹی سی جماعت اور تھوڑے سے لوگ ہیں، ہمیں ان کی کیا پروا ہے، ہم آسانی سے انھیں نیست و نابود کرسکتے ہیں اور چاہیں تو معمولی وسائل کے ساتھ انھیں واپس لاسکتے ہیں۔ ان الفاظ کے ساتھ وہ اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو دلیری دے رہا تھا، جب کہ اس سے اس کا سخت خوف زدہ ہونا ظاہر ہو رہا تھا کہ اگر واقعی وہ اتنے ہی قلیل اور بےوقعت ہیں تو تمہیں اتنی فوجیں اکٹھی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں مفسرین نے بائبل سے متاثر ہو کر لکھا ہے کہ اس وقت بنی اسرائیل کی تعداد بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ چھ لاکھ تھی، مگر یہ بات عقلاً ممکن ہی نہیں۔ حافظ ابن کثیر ؓ نے انھیں مبالغہ قرار دیا ہے۔ جوانوں کی اتنی بڑی تعداد اگر موسیٰ ؑ کے ساتھ ہوتی تو وہ کبھی ہجرت کا راستہ اختیار نہ کرتے اور چھ لاکھ کو ”لَشِرْذِمَةٌ قَلِيْلُوْنَ“ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ مفسر مراغی لکھتے ہیں : ”جو بات یقین سے کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل فرعون کے لشکر سے بہت کم تھے، لیکن ہم کسی معین عدد کا یقین نہیں کرسکتے، تورات اور تاریخ کی کتابوں میں جو مبالغہ آمیز باتیں ہیں ان کی تصدیق بہت مشکل ہے، ان پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے، ہمارے لیے بہتر ہے کہ ان کی تفاصیل میں نہ پڑیں۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں ان روایات کو باطل قرار دیا ہے اور ان میں موجود غلو کی وضاحت کی ہے، جسے نہ عقل قبول کرتی ہے اور نہ صحیح علمی بحث کے سامنے وہ قائم رہ سکتی ہیں۔“
Top