Madarik-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 54
اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِیْلُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ ہیں لَشِرْذِمَةٌ : ایک جماعت قَلِيْلُوْنَ : تھوڑی سی
(اور کہا) کہ یہ لوگ تھوڑی سی جماعت ہے
54: اِنَّ ھٰٓؤُلَآ ئِ لَشِرْذِمَۃٌ قَلِیْلُوْنَ (بیشک یہ تھوڑے سے آدمی ہیں) لشرذمہؔ چھوٹی جماعت۔ ان کو اسی نام سے ذکر کیا جو قلت کو ظاہر کرتا ہے پھر اس کی صفت قلیلونؔ لائے اور اس کو جمع قلت لائے گویا اس کے ہر گروہ کو بہت کم تعداد میں ظاہر کرنا مقصود ہے۔ نمبر 2۔ قلت سے مراد ذلت ہے تعداد کی قلت مراد نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ذلیل ہیں اس لئے ان کے غلبہ کی کوئی توقع ہی نہیں ہے اس نے قوم موسیٰ (علیہ السلام) کو قلیل قرار دیا حالانکہ ان کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار تھی کیونکہ فرعونیوں کی تعداد ان کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھی ان کی تعداد بقول ضحاک سات کروڑ تھی۔
Top