Al-Quran-al-Kareem - Aal-i-Imraan : 128
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ
لَيْسَ لَكَ : نہیں ٓپ کے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام (دخل) شَيْءٌ : کچھ اَوْ يَتُوْبَ : خواہ توبہ قبول کرے عَلَيْھِمْ : ان کی اَوْ : یا يُعَذِّبَھُمْ : انہیں عذاب دے فَاِنَّھُمْ : کیونکہ وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
تیرے اختیار میں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں، یا وہ ان پر مہربانی فرمائے، یا انھیں عذاب دے، کیوں کہ بلا شبہ وہ ظالم ہیں۔
لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ۔۔ : اس آیت میں پیغمبر ﷺ سے فرمایا کہ بندے کو اختیار نہیں، ہر قسم کے اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ (موضح) بئرِ معونہ پر جن قبائل نے آپ ﷺ کے ستر صحابہ کو دھوکے سے قتل کیا تھا، ان کے خلاف اور جنگ احد میں مشرکین کی طرف سے جو لوگ پیش پیش تھے، ان کے خلاف رسول اللہ ﷺ نے نام لے لے کر دعائے قنوت شروع کی۔ بئر معونہ والا واقعہ بخاری میں موجود ہے۔ [ بخاری، المغازی، باب غزوۃ الرجیع۔۔ الخ : 4086 ] عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد سر اٹھاتے تو ”سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَ لَکَ الْحَمْدُ“ کے بعد یہ دعا کیا کرتے : ”اے اللہ ! فلاں، فلاں اور فلاں پر لعنت فرما۔“ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ) ”تیرے اختیار میں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں۔“ [ بخاری، التفسیر، باب لیس لک من الامر شئ : 4069 ] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو جن کا نام لے کر آپ لعنت فرماتے تھے، توبہ کی توفیق عطا فرمائی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مختار کل اور عالم الغیب ذات صرف اللہ وحدہٗ لا شریک لہ ہی ہے، ورنہ آپ اپنے عزیز چچا کو ضرور مسلمان کرلیتے اور احد اور بئر معونہ میں ظلم کرنے والوں کو ضرور ملعون کروا لیتے۔ 2 ان آیات اور ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قنوت نازلہ میں کسی کافر کا نام لے کر لعنت کرنا جائز نہیں، کیا خبر اللہ تعالیٰ اسے توبہ کی توفیق بخش دے۔ ہاں، عام کفار پر لعنت درست ہے اور یہ رسول اللہ ﷺ سے بھی ثابت ہے۔
Top