Kashf-ur-Rahman - Ash-Shu'araa : 66
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ
لَيْسَ لَكَ : نہیں ٓپ کے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام (دخل) شَيْءٌ : کچھ اَوْ يَتُوْبَ : خواہ توبہ قبول کرے عَلَيْھِمْ : ان کی اَوْ : یا يُعَذِّبَھُمْ : انہیں عذاب دے فَاِنَّھُمْ : کیونکہ وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے پیغمبر ﷺ ! ان کے معاملہ میں تمہیں کوئی اختیار نہیں ہے خواہ اللہ تعالیٰ ان کو تہبہ کی توفیق دے یا ان کو سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔3
3 اے پیغمبر ! آپ کو ان کافروں کے معاملہ میں کوئی اختیار نہیں تفویض کیا گیا ہے ان کے مسلمان ہونے یا کافر رہنے میں آپ کو کوئی دخل نہیں ہے خواہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت و صفقت کے ساتھ توجہ فرمائے اور وہ مسلمان ہوجائیں یا اللہ تعالیٰ ان کو دنیا ہی میں کوئی سزا دے کیونکہ یہ بڑا ظلم کر رہے ہیں اور اپنے ظلم کی وجہ سے سزا کے مستحق ہیں۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بعض سرکش اور ظالموں کے حق میں بددعا کی تھی اس سے آپ کو منع کیا گیا کہ آپ ان کے حق میں ہلاک ہونے کی بددعا نہ کریں بلکہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان کو توبہ کی توفیق دے دیں اور وہ مسلمان ہوجائیں یا ان کو سزا دیں اگر وہ کفر پر اصرار کرتے رہیں آپ کا کام تبلیغ کرنا اور ان کو ہمارا احکام پہنچانا ہے اور ان کی باتوں کے مقابلہ میں برداشت اور صبر کرنا۔۔۔۔ ہے۔ فراء نے کہا اویتوب اوحتی ان کے معنی میں ہے ابن عیسیٰ نے کہا او الذان کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ تمہیں ان کے معاملہ میں کہ وہ مسلمان ہوتے ہیں یا کافر رہتے ہیں کوئی دخل دینے کا حق نہیں یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجائیں تو تم کو اس وقت خوشی ہوگی اور اگر کفر کی وجہ سے ان کو ہم عذاب کریں تو اس وقت آپ کے صبر کا بدلہ ہوجائے گا اور آپ کے قلب کو تسلی ہوجائے گی۔ اس آیت کا تعلق بظاہر غزوۂ احد سے ہے احد میں چونکہ ستر صحابہ شہید ہوئے تھے اور کفار نے انتہائی وحشت و بربریت کا مظاہرہ کیا تھا۔ حضرت حمزہ ؓ کی لاش کے ساتھ بہت ہی وحشیانہ برتائو کیا تھا خود نبی کریم ﷺ کو بھی کافروں نے اس جنگ میں گزند پہنچایا آپ کی پیشانی مبارک کو زخمی کیا۔ حضور ﷺ کے خود کی کڑیاں رخسار مبارک میں گھس گئیں۔ سامنے کے چار دانتوں میں سے نیچے کا داہنا دانت شہید ہوگیا۔ جسم مبارک سے بہت خون نکلا آپ پر غشی طاری ہوگئی کفار نے مشہور کردیا کہ محمد ﷺ قتل کردیئے گئے اس غلط خبر سے عام مسلمانوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔ اس نازک موقعہ پر سرکار دو عالم ﷺ کے منہ سے بےساختہ نکلا کیف یضلح قوم شبحوا نبیھم و کسروارباخیتہٗ بھلا اس قوم کو کس طرح فلاح نصیب ہوگی جس نے اپنے نبی کو زخمی کیا اور اپنے نبی کے دانت کو شہید کیا اور آپ نے چند لوگوں کے حق میں بددعا کا ارادہ کیا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ بیرمعونہ پر جو کافروں نے ستر قاریوں کو شہید کردیا تھا آپ نماز میں ان کے لئے بددعا کرتے تھے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ بعض کا قول ہے کہ آپ نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت پڑھتے تھے اور قبیلہ رعل ۔ کعان اور عصیہ کے لئے بددعا فرماتے تھے اور ان قبیلوں پر لعنت بھیجتے تھے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور آپ کو ایسا کرنے سے منع کیا گیا اور ہلاک وعدم ہلاک کے بارے میں آپ کے اختیار کی نفی فرمائی۔ (واللہ اعلم) لوگوں نے ان مختلف اقوال کی بہت سی توجیہات بیان کی ہیں یہ ہوسکتا ہے کہ آیت کسی ایک موقع پر نازل ہوئی ہو اور دوسرے موقعہ پر اس کی جانب توجہ دلائی ہو۔ بہرحال علماء و محققین کی رائے یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان آیتوں کا تعلق غزوۂ احد کے ساتھ ہے کیونکہ اس موقعہ پر مسلمان بہت متاثر تھے اور بالخصوص حضرت حمزہ ؓ کی شہادت اور ان کا ممثلہ کرنا ناک کان کاٹ کر ان کا ہار بنا کر پہننا۔ حضرت حمزہ کا کلیجہ نکال کر اس کو چبانا پھر نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کو گزند پہنچانا یہ سب امور ایسے تھے جن کا مسلمانوں پر بہت زیادہ اثر تھا اور بعض صحابہ نے فرمایا تھا کہ اگر ہم کو موقعہ ملا اور کفار پر ہم نے قابو پایا تو ہم سود در سود ان کافروں سے وصول کریں گے خود حضور ﷺ نے بھی حضرت حمزہ ؓ کی نعش کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ میں کافروں کو ستر بددعائیں دوں گا اس پر سورة نحل کی آخری آیتیں نازل ہوئیں اور اسی سلسلے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ رہا نبی کریم ﷺ کا بددعا کرنا یا بدعا کا قصد کرنا تو ظاہر ہے کہ یہ اجتہاداً تھا نہ آپ کو ممانعت کی گئی تھی نہ حکم دیا گیا تھا اس لئے آپ کی معصومیت پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ اب آگے اس اختیار پر جو نفی فرمائی تھی اس کی مزید تاکید ہے اور اس پر دلیل ہے کہ یہ اختیار تمہیں کیوں نہیں اور ہم کو کیوں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حق تعالیٰ نے پیغمبر کو تربیت فرمائی کہ بندے کو اختیار نہیں ہے اللہ تعالیٰ جو چاہے سو کرے اگرچہ کافر تمہارے دشمن ہیں اور ظلم پر ہیں لیکن چاہے ان کو ہدایت دے اور چاہے عذاب کرے اپنی طرف سے بددعا نہ کرو۔ (موضح القرآن) یہ امت بھی کیا خوش قسمت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ عذاب کو پیغمبر سے دریافت کرے تو پیغمبر رضامند نہ ہوں جیسا کہ طائف میں ہوا اور کبھی پیغمبر بددعا پر آمادہ ہوں تو اللہ تعالیٰ روک دے۔ صد شکر کہ ہستیم میان ردکریم۔ (تسہیل)
Top