Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 128
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ
لَيْسَ لَكَ : نہیں ٓپ کے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام (دخل) شَيْءٌ : کچھ اَوْ يَتُوْبَ : خواہ توبہ قبول کرے عَلَيْھِمْ : ان کی اَوْ : یا يُعَذِّبَھُمْ : انہیں عذاب دے فَاِنَّھُمْ : کیونکہ وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
(اے پیغمبر) اس کام میں تمہارا کچھ اختیار نہیں (اب دو صورتیں ہیں) یا خدا انکے حال پر مہربانی کرے یا انہیں عذاب دے کہ یہ ظالم لوگ ہیں
لیس لک من الامر شیء آپ ﷺ کو اس امر کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ (اس آیت کے شان نزول میں ایک اور قصہ بھی آیا ہے) جو امام احمد اور بخاری نے حضرت ابن عمر کی روایت سے بیان کیا ہے حضرت ابن عمر کا بیان ہے کہ میں نے خود سنا رسول اللہ فرما رہے تھے اے اللہ فلاں شخص پر لعنت کر۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے دعا کی اے اللہ ابو سفیان پر لعنت کر، اے اللہ حارث بن ہشام پر لعنت کر، اے اللہ سہیل بن عمرو پر لعنت کر، اے اللہ صفوان بن امیّہ پر لعنت کر۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان سب کو توبہ کی توفیق عنایت کی گئی۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ شیخ ابن حجر نے دونوں روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ جنگ احد کے دن جو واقعہ ہوا (اور حضور ﷺ نے جو کچھ فرمایا) اس کے بعدمذکورہ بالا اشخاص کے لیے رسول اللہ نے نماز میں بد دعا کی۔ پس ان دونوں قصوں پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ سعید بن مسیب اور محمد بن اسحاق نے بیان کیا کہ جب احد کے دن رسول اللہ اور مسلمانوں نے دیکھا کہ کافروں نے مسلمانوں کے ناک، کان اور آلات تناسل کاٹ کر سب کو مثلہ بنا دیا تو کہنے لگے اگر اللہ نے ہم کو ان پر غلبہ عنایت کیا تو جیسا انہوں نے کیا ہے ہم بھی ایسا ہی کریں گے اور اس طرح مثلہ بنائیں گے کہ کسی عرب نے کسی کے ساتھ نہ کیا ہوگا اس پر آیت کا نزول ہوا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے ان لوگوں کے بیخ و بن سے تباہ ہوجانے کی بد دعا دینے کا ارادہ کیا تھا تو یہ آیت نازل ہوئی کیونکہ اللہ کو معلوم تھا کہ ان میں سے بہت لوگ مسلمان ہوجائیں گے۔ لیکن ان روایات کا تعارض اس روایت سے ہوتا ہے جو مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کے حوالہ سے بیان کی ہے کہ رسول اللہ فجر کی نماز میں پڑھا کرتے تھے۔ اللّٰھم العن رعلا وذکوان وعصیۃ یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی (اور حضور نے بددعا کرنا موقوف کیا) کیونکہ رعل و ذکوان کا قصہ اس کے بعد کا ہے۔ رعل و ذکوان قبائل کا تعلق بیر معونہ کے قصہ سے تھا رسول اللہ نے سترّ قاری قرآن سکھانے پڑھانے کے لیے ان قبائل کے پاس روانہ کئے تھے جن کے امیر منذر بن عمرو تھے مگر عامر بن طفیل ؓ نے ان سب قاریوں کو شہید کردیا۔ حضور کو اس کا سخت رنج ہوا اور مہینہ بھر تک ہر نماز میں آپ نے ان قبائل کے لیے بد دعا کی۔ حافظ ابن حجر نے اس روایت کو مدرج قرار دیا ہے تعارض کو دور کرنے کی ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جنگ احد سے چار ماہ بعد ماہ صفر 4 ھ میں رعل وذکوان کا قصہ ہوا تھا اس لیے ممکن ہے کہ اس آیت کا نزول دونوں واقعات کے بعد ہوا ہو۔ اگر سبب نزول سے کچھ مدت کے بعد آیت کا نزول ہوا ہو تو بعید نہیں لیکن بخاری نے تاریخ میں اور ابن اسحاق نے سالم بن عبد اللہ بن عمر کی روایت سے آیت کا سبب نزول یہ لکھا ہے کہ ایک قریشی شخص نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر کہا تم ایک بات سے منع کرتے ہو پھر اس کو پلٹ دیتے ہو یہ کہہ کر اس نے اپنی پشت رسول اللہ کی طرف پھیر دی اور پیچھے سے سرین کھول دیئے حضور ﷺ نے (اس گستاخی کی وجہ سے) اس کے لیے بد دعا کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی پھر وہ شخص مسلمان ہوگیا اور اس کا اسلام اچھا رہا۔ یہ روایت مرسل اور غریب ہے۔ او یتوب علیہم او یعذبھم یہاں تک کہ اللہ ان کی توبہ قبول فرما لے گا اگر وہ مسلمان ہوجائیں گے یا ان کو عذاب دے گا اگر وہ کفر پر جمے رہیں گے دنیوی عذاب بصورت قتل و گرفتاری ہوگا اور آخرت میں عذاب جہنم ہوگا۔ فانھم ظالمون اس لیے کہ وہ ظالم ہیں یہ عذاب دینے کی علت ہے۔ فراء نے کہا : اَوْ یَتُوْبَ میں اَوْحتی (یہاں تک) کے معنی میں ہے۔ ابن عیسیٰ نے اَوْ کا معنی الاّ اَنْ (مگر یہ کہ) کا ہے جیسے بولا جاتا ہے : لا لزمنک او تعطینی حقی میں تیرا پیچھا نہیں چھوڑونگا یہاں تک کہ تو میرا حق دیدے (بر قول فراء) یا مگر یہ کہ تو میرا حق دیدے (برقول ابن عیسیٰ ) آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو عذاب دینا یا نہ دینا کوئی بات آپ کے اختیار میں نہیں ہے یہاں تک کہ اللہ مسلمان ہونے کی وجہ سے یا ان پر رحم فرمائے گا اور تم کو اس سے خوشی ہوگی یا (کفر پر جمے رہنے کی وجہ سے) ان کو عذاب دیگا اور اس سے تم کو تسکین حاصل ہوگی۔ بعض علماء نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ اَوْ یَتُوْبَ کا عطف اَلْاَمر پر یاشیءٌ پر ہو یعنی آپ کو ان کے معاملہ کا یا ان کو عذاب دینے یا رحم کرنے کا کوئی اختیار نہیں آپ صرف اس بات پر مامور ہیں کہ ان کو ڈرائیں اور ان سے جہاد کریں نتیجہ کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تفتازانی نے اعتراض کیا ہے کہ اس صورت میں عام پر خاص کا عطف ہوگا (الامر عام ہے اور یتوب و یعذب خاص ہے) لیکن ایسے موقعہ پر لفظ اَو نہیں لایا جاتا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ امر سے اس جگہ حال مراد ہے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امر بمعنی حکم ہو اس وقت یہ مطلب ہوگا کہ آپ جو حکم دیتے ہیں وہ آپ کی طرف سے نہیں ہوتا حکم دینا اور فرض کرنا آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے اور نہ رحم کرنا اور عذاب دینا آپ کے اختیار میں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اس آیت کے نزول کو پہلی آیت سے مربوط قرار دیا جائے تو اَو یَتوبَ عَلَیْھِم کا عطف اَوْ یَکْبِتَ پر ہوگا اور مطلب اس طرح ہوگا کہ اللہ نے بدر میں تمہاری مدد اس لیے کی کہ کافروں کی ایک جماعت کو ہلاک کردے یا شکست دے کر ایک گروہ کو ناکام لوٹا دے یا مسلمان ہوجانے کی وجہ سے ان پر رحم کرے یا ان کو عذاب دے۔ گویا احوال کفار کی چار انواع بیان فرمائیں۔ اس تفصیل پر لیس لک من الامر شیء بد دعا سے روکنے کے لیے جملہ معترضہ ہوگا۔
Top