Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 128
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ
لَيْسَ لَكَ : نہیں ٓپ کے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام (دخل) شَيْءٌ : کچھ اَوْ يَتُوْبَ : خواہ توبہ قبول کرے عَلَيْھِمْ : ان کی اَوْ : یا يُعَذِّبَھُمْ : انہیں عذاب دے فَاِنَّھُمْ : کیونکہ وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
(اے پیغمبر ﷺ اس کام میں تمہارا کچھ اختیار نہیں (اب دو صورتیں ہیں) یا خدا ان کے حال پر مہربانی کر کے یا انہیں عذاب دے کہ یہ ظالم لوگ ہیں
آیت نمبر : 128 تا 129۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) صحیح مسلم میں موجود ہے کہ غزوہ احد میں حضور نبی مکرم ﷺ کے دندان مبارک شہید کردیئے گئے اور آپ کا سرزخمی کردیا گیا، تو آپ ﷺ اس سے خون صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے : ” وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جنہوں نے اپنے نبی کا سرزخمی کردیا اور اس کے دانت توڑ دیئے حالانکہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہے ، “ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” لیس لک من الامر شیئ “۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیرباب غزوہ احد، جلد 2، صفحہ 108، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی) ضحاک (رح) نے کہا ہے : حضور نبی کریم ﷺ نے مشرکین کے لئے بددعا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا : (آیت) ” لیس لک من الامر شیئ “۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے ان کے استئصال اور بربادی کے بارے دعا مانگنے کی اجازت طلب کی تو جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے جان لیا کہ ان میں سے بعض عنقریب اسلام قبول کرلیں گے، چناچہ پھر بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے ان میں سے حضرت خالد بن ولید، عمرو بن العاص اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ افراد ہیں۔ ترمذی نے حضرت ابن عمر ؓ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : حضور نبی مکرم ﷺ چار آدمیوں کے لئے بددعا کرتے رہے، پھر اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” لیس لک من الامر شیئ “۔ آیت نازل فرمائی، اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی ہدایت اور توفیق عطا فرما دی، اور امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ (2) (جامع ترمذی، کتاب تفسیر القرآن سورة آل عمران جلد 1، صفھہ 125، اسلام آباد) اور قولہ تعالیٰ : (آیت) ” او یتوب علیھم کہا گیا ہے یہ لیقطع طرفا “۔ پر معطوف ہے اور معنی ہے تاکہ وہ ان میں سے ایک گروہ کو قتل کر دے یا انہیں شکست وہزیمت کے ساتھ ذلیل ورسوا کردے یا ان کی توبہ قبول فرمالے یا انہیں عذاب دے اور یہاں او بمعنی حتی اور ” الا ان “۔ امرو القیس “ نے کہا ہے : اون موت فنعذرا : ہمارے علماء نے کہا ہے : حضور ﷺ کا یہ ارشاد : کیف یفلح قوم شجوا راس نبی تھم “۔ یہ بعید سمجھنا ہے اس کے لئے توفیق کو جس نے آپ کے ساتھ ایسا سلوک کیا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” لیس لک من الامر شیئ “۔ یہ اسے قریب کرنا ہے جسے آپ نے بعید سمجھا اور ان کے اسلام قبول کرنے میں حرص وطمع کا اظہار ہے۔ اور جب اس بارے میں آپ ﷺ کو طمع دلایا گیا تو آپ ﷺ نے اس طرح عرض کی : اللہم اغفر لقومی فانھم لا یعلمون “۔ (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الفطن باب الصبر علی البلاء صفحہ 300، ایضا صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، حدیث 3218، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (اے اللہ ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے ہیں) جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے : گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھ رہا ہوں آپ انبیاء میں سے کسی نبی (علیہ السلام) کا ذکر فرما رہے ہیں کہ آپ کی قوم نے آپ کو مارا اور وہ اپنے چہرے سے خون صاف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ” اے میرے پروردگار ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہی جانتے ہیں۔ “ ہمارے علماء نے کہا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث میں حکایت کرنے والے رسول اللہ ﷺ ہیں اور وہ محکی عنہ ہیں اور اس پر صریح اور واضح دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کے دندان مبارک شہید کردیئے گئے اور آپ کا چہرہ مقدس زخمی کردیا گیا غزوہ احد میں تو یہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر انتہائی شاک گزرا تو انہوں نے عرض کی : اگر آپ ان کے لئے بددعا فرمائی ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : بلاشبہ میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ مجھے دعوت دینے والا اور رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (2) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، جلد 2، صفحہ 323) اے اللہ میری قوم کی مغفرت فرما کیونکہ وہ نہیں جانتے۔ “ گویا کہ آپ ﷺ کی طرف واقعہ احد پیش آنے سے پہلے اس کے بارے وحی کی گئی اور نبی مکرم ﷺ نے اسے اپنے لئے معین نہیں کیا اور جب آپ کو یہ واقعہ پیش آیا تو متعین ہوگیا کہ معنی یہی ہے اور اس کی دلیل وہی ہے جو ہم نے ذکر کردی ہے، اور حضرت عمر ؓ نے اپنے بعض کلام میں اس بارے میں جو کہا ہے وہ بھی اس کی وضاحت کرتا ہے : ہو یا رسول اللہ ! ﷺ میرے ماں باپ آپ نثار ہوں حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے بارے میں بددعا کی اور یہ کہا۔ (آیت) ” رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیارا “۔ الآیہ (نوح) ترجمہ : اے رب ! زمین پر کافروں کا کوئی گھر نہ چھوڑ۔ اور اگر آپ ہمارے خلاف اس طرح کی دعا کرتے تو ہم اپنے آخر کی طرف سے ہلاک ہوجاتے، حالانکہ آپ کی پشت کو روندا گیا، آپ کا چہرہ خون آلود کیا گیا اور آپ کے دندان مبارک شہید کئے گئے لیکن آپ نے کلمہ خیر کے سوا کچھ نہ کہا اور یہ دعا کی : ” رب اغفر لقومی فانھم لا یعلمون “ (3) (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، باب غزوہ احد، جلد 2، صفحہ 208) اور آپ کا قول : ” اشتد غضب اللہ علی قوم کسروا رباعیۃ نبیھم “ (4) (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 108، ایضا صحیح بخاری کتاب المغازی، حدیث نمبر 3785، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (اللہ تعالیٰ کا غضب شدید اور سخت ہوا اس قوم پر جنہوں نے اپنے نبی (علیہ السلام) کے دندان مبارک شہید کردیئے) یہ خالصۃ اس کے لئے ہے جس نے عملا ایسا کیا اور ہم نے اس کا نام ذکر کردیا ہے اگرچہ اس کے بارے اختلاف ہے اور ہم نے یہ کہا کہ یہ مباشر (عمل کرنے والے) کے ساتھ خاص ہے، اس لئے کہ ان میں سے ایک جماعت نے اسلام قبول کرلیا جو جنگ احد میں شریک ہوئے تھے اور خوب اچھی طرح اسلام لائے۔ مسئلہ نمبر : (2) بعض علماء کوفہ نے گمان کیا ہے کہ یہ آیت اس قنوت کے لئے ناسخ ہے جو حضور نبی مکرم صبح کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھا کرتے تھے اور حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کو فجر کی نماز میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یہ کہتے ہوئے سنا : اللہم ربنا ولک الحمد فی الاخرۃ۔۔۔۔۔ پھر کہا۔۔۔۔ اللہم العن فلانا و فلانا “ ، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” لیس لک من الامر شیء اویتوب علیھم اویعذبھم “۔ الآیہ۔ اسے بخاری نے نقل کیا ہے (1) (صحیح بخاری، کتاب الاعتصام لکتاب اللہ، جلد 2 صفحہ 1091، اسلام آباد، ایضا حدیث نمبر 6800، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور امام مسلم نے بھی حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے یہ اس سے زیادہ مکمل اور اتم ہے (2) (صحیح بخاری تفسیر سورة آل عمران، حدیث نمبر 194، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ نسخ کا محل نہیں ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو اس پر متنبہ کیا ہے کہ امر ان کے پاس نہیں ہے اور یہ کہ وہ غیب میں سے کچھ نہیں جانتے مگر وہی جو میں انہیں بتاتا ہوں اور یہ کہ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ جسے چاہے گا اس کی توبہ قبول فرما لے گا اور جس کے لئے چاہے گا اسے جلدی عذاب میں مبتلا کر دے گا، اور تقدیر کلام اس طرح ہے : ” لیس لک من الامر شی وللہ ما فی السموات وما فی الارض دونک ودونھم یغفر لمن یشاء ویتوب علی من یشائ “۔ (آپ کا اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں ہے اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور اور جو کچھ زمین میں ہے نہ آپ کا ہے اور نہ ہی ان کا ہے وہ بخش دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور جس کی چاہتا ہے توبہ قبول فرما لیتا ہے) پس اس میں کوئی نسخ نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد (آیت) ” لیس لک من الامر شیئ “۔ سے یہ بیان کیا ہے کہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے ہوتے ہیں اس میں قدریہ وغیرہ کا رد ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) نماز فجر اور اس کے علاوہ نمازوں میں قنوت پڑھنے کے بارے علماء نے اختلاف کیا ہے، پس کو فیوں نے نماز فجر وغیرہا میں قنوت سے منع کیا ہے اور یہی مذہب لیث اور صاحب مالک یحییٰ بن یحی لیثی اندلسی کا ہے، اور شعبی نے اس کا انکار کیا ہے اور مؤطا میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ کسی نماز میں قنوت نہ پڑھتے تھے (3) (موطا امام مالک، باب القنوت فی الصبح صفحہ 143، اسلام آباد) اور نسائی نے روایت کیا ہے کہ ہمیں قتیبہ نے عن خلف عن ابی مالک اشجعی عن ابیہ کی سند سے خبر دی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : میں نے حضور نبی مکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی اور آپ نے قنوت نہ پڑھی اور میں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور آپ نے دعائے قنوت نہ پڑھی اور میں نے حضرت عمر ؓ کی اقتداء میں نماز ادا کی اور آپ نے بھی قنوت نہیں پڑھی اور میں نے حضرت عثمان ؓ کی اقتدا میں نماز پڑھی اور آپ نے بھی قنوت نہیں پڑھی اور میں نے حضرت علی ؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور آپ نے بھی قنوت نہ پڑھی، پھر فرمایا : اے بیٹے ! یہ بدعت ہے (4) (سنن نسائی باب ترک القنوت جلد 1، صفحہ 164، ایضا جامع ترمذی، باب ماجاء فی ترک القنوت حدیث نمبر 368، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فجر کی نماز میں ہمیشہ قنوت پڑھی جائے گی اور تمام نمازوں میں (پڑھی جائے گی) جبکہ مسلمانوں پر کوئی آفت نازل ہو، امام شافعی (رح) اور طبری نے یہی کہا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ نماز فجر میں مستحب ہے اور یہ امام شافعی (رح) سے مروی ہے اور حسن اور سحنون نے کہا ہے کہ یہ سنت ہے اور یہی علی بن زیادہ کی اس روایت کا تقاضا ہے جو امام مالک (رح) سے مروی ہے کہ جان بوجھ کر اسے چھوڑنے والا نماز کا اعادہ کرے گا اور علامہ طبری نے اس پر اجماع بیان کیا ہے کہ اسے چھوڑ دینا نماز کو فاسد نہیں کرتا، اور حسن سے منقول ہے کہ قنوت کے ترک ہوجانے میں سجدہ سہو لازم ہے اور یہی امام شافعی (رح) کے دو قولوں میں سے ایک ہے، دارقطنی (رح) نے سعید ابن عبدالعزیز (رح) سے اس کے بارے میں بیان کیا ہے جو صبح کی نماز میں قنوت بھول گیا۔ فرمایا : وہ سہو کے دو سجدے کرے گا، اور امام مالک (رح) نے رکوع سے پہلے کو اختیار کیا ہے اور یہی اسحاق کا قول ہے اور یہی امام شافعی (رح)، احمد (رح) اور اسحاق (رح) کا بھی قول ہے، اور صحابہ کرام کی ایک جماعت سے اس بارے میں اختیار مروی ہے، (یعنی چاہے تو رکوع سے پہلے پڑھے اور چاہے تو رکوع کے بعد) اور دارقطنی نے اسناد صحیح کے ساتھ حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز میں مسلسل قنوت پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے، اور ابو دادؤ نے نے مراسیل میں خالد بن ابی عمران سے ذکر کیا ہے، انہوں نے فرمایا : اس اثنا میں کہ رسول اللہ ﷺ مضر کے خلاف دعا کر رہے تھے کہ اچانک جبرائیل امین (علیہ السلام) حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کی طرف اشارہ کیا کہ خاموش رہیے تو آپ ﷺ خاموش ہوگئے، پھر انہوں نے کہا : ” اے محمد ! ﷺ بلاشبہ اللہ تعالیٰ آپ کو گالی گلوچ اور لعن طعن کرنے کے لئے نہیں بھیجا، بلکہ اس نے آپ کو رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے اور اس نے آپ کو عذاب کے لئے نہیں بھیجا۔ (آیت) ” لیس لک من الامر شیء اویتوب علیھم اویعذبھم فانھم ظلمون “۔ راوی نے بیان کیا : پھر انہوں نے آپ ﷺ کو یہ دعائے قنوت سکھائی پس فرمایا : اللھم انا نستعینک ونستغفرک ونؤمن بک ونخنع لک ونخلع ونترک من یکفرک اللھم ایاک نعبد ولک نصلی ونسجد والیک نسعی ونحفد ونرجو رحمتک ونخاف عذابک الجد ان عذابک بالکافرین ملحق۔
Top