Al-Quran-al-Kareem - Faatir : 6
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا١ؕ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِؕ
اِنَّ الشَّيْطٰنَ : بیشک شیطان لَكُمْ : تمہارے لیے عَدُوٌّ : دشمن فَاتَّخِذُوْهُ : پس اسے سمجھو عَدُوًّا ۭ : دشمن اِنَّمَا يَدْعُوْا : وہ تو بلاتا ہے حِزْبَهٗ : اپنے گروہ کو لِيَكُوْنُوْا : تاکہ وہ ہوں مِنْ : سے اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ : جہنم والے
بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے گروہ والوں کو صرف اس لیے بلاتا ہے کہ وہ بھڑکتی آگ والوں سے ہوجائیں۔
اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ : شیطان تمہارا دشمن ہے، تمہارے ساتھ اس کی عداوت قدیم اور قیامت تک کے لیے دائمی ہے، جس کی بنیاد حسد پر ہے اور حاسد کی عداوت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ سورة کہف میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : (وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ ۭ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ للظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا) [ الکہف : 50 ] ”اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، وہ جنوں میں سے تھا، سو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی، تو کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو، حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں، وہ (شیطان) ظالموں کے لیے بطور بدل برا ہے۔“ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا ۭ : جب وہ تمہارا دشمن ہے تو تم بھی ہمیشہ اسے دشمن ہی سمجھو، وہ کبھی تمہارا خیر خواہ یا دوست نہیں ہوسکتا، اپنے عقائد و اعمال اور اپنے اقوال و افعال اور احوال، غرض ہر چیز میں اس کی مخالفت کرو اور مرتے دم تک یہ عداوت قائم رکھو۔ اِنَّمَا يَدْعُوْ احِزْبَهٗ لِيَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ : اپنے گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس کا کہا مانتے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں۔ یعنی شیطان بظاہر جتنی بھی خیر خواہی کرے مقصد اس کا یہی ہے کہ وہ اکیلا جہنم میں جانے کے بجائے اپنے دوستوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر جائے۔ اس لیے اس کی خیر خواہی پر کبھی بھی اعتماد نہ کرو۔
Top