Al-Qurtubi - Faatir : 6
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا١ؕ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِؕ
اِنَّ الشَّيْطٰنَ : بیشک شیطان لَكُمْ : تمہارے لیے عَدُوٌّ : دشمن فَاتَّخِذُوْهُ : پس اسے سمجھو عَدُوًّا ۭ : دشمن اِنَّمَا يَدْعُوْا : وہ تو بلاتا ہے حِزْبَهٗ : اپنے گروہ کو لِيَكُوْنُوْا : تاکہ وہ ہوں مِنْ : سے اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ : جہنم والے
شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو وہ اپنے (پیروؤں کے) گروہ کو بلاتا ہے تاکہ وہ دوزخ والوں میں سے ہوں
آیت : ان الشیطان لکم عدو فا تخذوہ عدوا پس تم بھی اس سے دشمنی کرو اور اس کی اطاعت نہ کرو اس کا تمہارے جد اعلیٰ کو جنت سے نکالنا اس کی دشمنی پر دلالت کرتا ہے اور اس کا تمہیں گمراہ کرنے کی ضمانت اٹھانا ولا ضلنھم ولا منینھم اللہ تعالیٰ ہمیں خبر دی کہ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے اللہ تعالیٰ نے شیطان کا قصہ اور اس نے ہمارے جد اعلیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ جو کچھ کیا اس کو بیان کیا۔ شیطان نے ہمارے سے پہلے اور اس کے بعد کیسے ہماری عداوت اور دھوکہ دینے کا اطلاق کیا اور ہم اس کے با وجود اس سے دوستی کرتے ہیں اور ہم اس کی ان امور میں اطاعت کرتے ہیں جس میں وہ ہماری ہلاکت کا ارادہ کرتا ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض کہا کرتے تھے : اے جھوٹے انسان ! اور اے افراء باندھنے والے ! اعلانیہ شیطان کو گالیاں نہ دے جب کہ تو خفیہ طریقہ سے اس کا دوست ہے۔ ابن سماک نے کہا : اس آدمی پر تعجب ہے جو احسان پہچاننے کے بعد محسن کی نافر مانی کرتا ہے اور لعین کی دشمنی پہچاننے کے بعد لعین کی اطاعت کرتا ہے۔ سورة بقرہ میں یہ بحث مفصل گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان : آیت : ان الشیطان لکم عدو میں یہ جائز ہے کہ وہ عدو، معاد کے معنی میں ہو تو اس صورت میں اس کا تثنیہ اور جمع اور مئو نث کا صیغہ بنایا جاتا ہے۔ یہ نسبت کے معنی میں ہوتا ہے تو یہ ہر حال میں واحد ہوگا، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آیت : فا نھم عدو لی (الشعراء : 77) مئو نث میں بھی یہ عدو ہوگا۔ نحاس نے کہا : بعض نحویوں کے قول کہ وائو خفیہ ہے وہ اسے باء کے ساتھ لاتے ہیں تو یہ غلط ہے بلکہ وائو مضبوط حرف ہے۔ آیت : انما یدعوا حذبہ، ما نے ان کو عمل سے روک دیا تو اس کے بعد فعل واقع ہوا۔ حذبہ اپنے حمایتیوں کو۔ آیت : لیکونوا من اصحب السعیر (1) تاکہ وہ جہنمی ہوجائیں یہی اس کی علامت ہے۔
Top