Fi-Zilal-al-Quran - Faatir : 6
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا١ؕ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِؕ
اِنَّ الشَّيْطٰنَ : بیشک شیطان لَكُمْ : تمہارے لیے عَدُوٌّ : دشمن فَاتَّخِذُوْهُ : پس اسے سمجھو عَدُوًّا ۭ : دشمن اِنَّمَا يَدْعُوْا : وہ تو بلاتا ہے حِزْبَهٗ : اپنے گروہ کو لِيَكُوْنُوْا : تاکہ وہ ہوں مِنْ : سے اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ : جہنم والے
اور حقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو ۔ وہ تو اپنے پیرو وں کو اپنی راہ پر اس لیے بلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں
فاتخذوہ عدوا (35: 6) ” لہٰذا تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو “۔ اس کی طرف نہ جھکو ، اسے اپنا ناصح نہ سمجھو ۔ اس کے نقش قدم پر نہ چلو کیونکہ دشمن ، دشمن کے قدم پر نہیں چلا کرتا۔ اگر وہ عقلمند ہے کیونکہ دشمن انسان کو کبھی بھی بھلائی کی طرف نہیں بلاتا اور نہ دشمن دشمن کی فلاح ونجات چاہتا ہے ۔ انما یدعوا جزبہ لیکوامن اصحب السعیر (35: 6) ” وہ تو اپنے پیردوں کو اپنی راہ پر اس لیے چلا رہا ہوتا ہے کہ وہ دو زخیوں میں شامل ہوجائیں “۔ کیا کوئی عاقل یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ جہنمیوں میں سے ہوجائے ۔ یہ ایک وجدانی احساس ہے ۔ جب انسان اس بات کو ذہن میں رکھ لے کہ اس کے اور شیطان کے درمیان معرکہ جاری ہے تو وہ اپنی پوری قوت مجتمع کرلیتا ہے ۔ وہ ہر وقت بیدار رہتا ہے اور اپنی ذات اور اپنے خیالات کا دفاع کرتا ہے ۔ وہ دشمن کے دھوکے اور گمراہ کن اقدامات سے اپنے آپ کو بچاتا ہے اور وہ ہر وسوسہ اندازی سے بیدار رہتا ہے ۔ ہر نئی بات کو اللہ اور رسول کے پیمانوں سے پیمائش کرتا ہے تاکہ وہ معلوم کرسکے کہ یہ حقیقت ہے یا دھوکہ ہے۔ یہ ایک وجدانی حالت ہے جسے قرآن ہر ضمیر میں پیدا کرنا چاہتا ہے یعنی ہر وقت شیطانی وساوس سے بچاؤ کے لیے تیار رہتا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ۔ جیسا کہ کوئی شخص یا ملک اپنے دشمن سے ہر وقت چوکنارہتا ہے ۔ اور اس کے شروفسار کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے ۔ دشمن کے ذہنی اور جسمانی شر سے بچاؤ کے لیے ۔ اور ہر وقت کسی بھی معر کے میں کو دنے کے لیے تیاری کی حالت کا برقرار رکھنا ، اسی احتیاط ، مدافیچا تیاری اور احتیاطی تدابیر کو مزید متحکمر کرنے کے لیے بتایا جاتا ہے کہ کا فرین کا انجام کیا ہوگا اور اہل اسلام کا کیا ہوگا ۔
Top