Tafseer-e-Madani - Faatir : 6
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا١ؕ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِؕ
اِنَّ الشَّيْطٰنَ : بیشک شیطان لَكُمْ : تمہارے لیے عَدُوٌّ : دشمن فَاتَّخِذُوْهُ : پس اسے سمجھو عَدُوًّا ۭ : دشمن اِنَّمَا يَدْعُوْا : وہ تو بلاتا ہے حِزْبَهٗ : اپنے گروہ کو لِيَكُوْنُوْا : تاکہ وہ ہوں مِنْ : سے اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ : جہنم والے
بلاشبہ شیطان دشمن ہے تم سب کا (اے لوگوں ! ) پس تم اس کو ہمیشہ اپنا دشمن ہی سمجھنا اس کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بلاتا (اور دعوت دیتا) ہے اپنی پارٹی (اور اپنے یاروں) کو تاکہ وہ ہوجائیں (دوزخ کی دہکتی) بھڑکتی آگ کے یاروں میں سے
15 شیطان کو دشمن سمجھنے کی ہدایت : سو ارشاد فرمایا گیا اور کلمات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " بلاشبہ شیطان تمہارا دشمن ہے "۔ پس تم اس کو اپنا دشمن ہی سمجھنا۔ پس تم لوگ اس کی ترغیبات کو چھوڑ کر اور اس کی تحریصات کو توڑ کر اور اپنے خالق ومالک کے احکام کو دل و جان سے اپنا کر اور اسی کے بندے بن کر زندگی گزارو اور ہر وقت اور ہر حال میں اسی کی رضا و خوشنودی کو حاصل کرنے کی کوشش کرو ۔ اللہ توفیق بخشے ۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی میں یہ تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ پس تم اس کو دشمن ہی سمجھو اور اس کی چالوں سے بچ کر رہو کہ اس کی تمام سرگرمیوں کا مقصد اور محور یہ ہے کہ جو لوگ اس کی پارٹی میں شامل ہوجائیں وہ ان سب کو لے جاکر جہنم کے گھاٹ پر اتار دے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو جو تمہارا دشمن اور کھلا دشمن ہو اس نے اپنی دشمنی کا علی الاعلان اور برملا اظہار بھی کردیا ہو، اپنی باگ اس کے ہاتھ میں دے دینا اور اس کے کہنے پر چلنا اور اس کے طور طریقوں کو اپنانا اور اختیار کرنا آخر کہاں کی دانشمندی ہے ؟ سو ہدایت فرمائی گئی کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اس لیے تم لوگ اس کو دشمن ہی سمجھو اور اس کی چالوں سے بچ کر رہو ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل - 16 ابلیس کا اصل کام برائی کی دعوت دینا ہے اور بس : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنی پارٹی اور اپنے یاروں کو بلاتا اور دعوت دیتا ہے تاکہ وہ دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ کے یاروں میں سے ہوجائیں۔ پس اس دعوت و پکار کے سوا اس کا اور کوئی زور نہیں۔ لہذا تم اس کی دعوت کو ٹھکرا کر اپنے رب کی عبادت و بندگی ہی کو اپنی زندگی کا مقصد اور نصب العین بنانا کہ یہی کامیابی کی راہ ہے۔ سو شیطان لوگوں کو گمراہی اور اتباع ھویٰ کی طرف بلا کر انکو دوزخ کی راہ پر ڈالنا چاہتا ہے تاکہ اس طرح وہ اپنے پیروکاروں کو دوزخ کے ہولناک گڑھے میں ڈال سکے۔ لیکن اسکا کام اور زور صرف بلانے اور دعوت دینے کی حد تک ہے۔ اس سے آگے اس کے اختیار میں کچھ نہیں۔ اس لیے اسکا زور انہی لوگوں پر چل سکتا ہے جو ایک ساتھ دوستی رکھتے ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { اِنَّہُ لَیْسَ لَہُ سُلْطَانٌ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ اِنَّمَا سُلْطَانُہُ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہُ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِہ مُشْرِکُوْنَ } ۔ (النحل :99-100) ۔ اسی لیے وہ دوزخ میں اپنے پیروکاروں سے کہے گا کہ تم لوگوں نے میری پیروی کیوں کی تھی۔ میرا تو تم لوگوں پر کوئی زور نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے لوگوں کو بلایا پکارا اور باطل کی دعوت دی اور بس۔ اور تم نے اللہ کے وعدے کے برخلاف میری پیروی کی تو تم نے میری پیروی کیوں کی تھی۔ سو قصور خود تم لوگوں کا اپنا ہے۔ پس تم مجھے برا مت کہو بلکہ خود اپنے آپ کو برا کہو جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی تصریح موجود ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top