Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaashiya : 17
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو، بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً : ان دو آیات میں چار حکم ہیں، پہلا یہ کہ دعا عاجزی سے گڑ گڑا کر اور خشوع سے ہونی چاہیے اور دعا تنہائی میں کرنا مستحب اور بہتر ہے، کیونکہ اس سے ریا کو راستہ نہیں ملتا اور اخلاص میں خلل نہیں آتا۔ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ : دوسرا یہ کہ حد سے بڑھنا اللہ تعالیٰ کو کسی صورت پسند نہیں۔ اس میں اللہ کے ساتھ شرک کرنا یا کسی پر ظلم کرنا بھی شامل ہے اور ایسی چیز کی دعا کرنا جو ناممکن ہو، مثلاً میں ہمیشہ زندہ رہوں، یا مجھے آخرت میں انبیاء کا مرتبہ حاصل ہوجائے، یا ایسی چیز کی دعا کرنا جس کے متعلق علم نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا مانگنا پسند ہے، جیسے نوح ؑ کی اپنے بیٹے کے لیے دعا بھی حد سے تجاوز تھا۔ اسی طرح چیخنا چلاتا اور مسنون دعائیں چھوڑ کر مقفی و مسجع کلام اور اشعار وغیرہ بھی حد سے تجاوز میں شامل ہیں۔ (شوکانی) ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ سفر کے دوران میں ہماری آوازیں تکبیر اور لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ بلند ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”لوگو ! اپنے آپ پر نرمی کرو (یعنی ذرا آہستہ پکارو) ، کیونکہ تم کسی گونگے یا غائب کو نہیں پکار رہے، بلکہ جسے پکار رہے ہو وہ سننے والا ہے اور قریب بھی۔“ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب ما یکرہ من رفع الصوت فی التکبیر : 2992، 6389 ] وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا : تیسرا یہ کہ زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت کرو، یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور شرک کے کام مت کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور گناہوں کا ارتکاب ہی ”فساد فی الارض“ ہے، فرمایا : (ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ) [ الروم : 41 ] ”خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا۔“ وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا : چوتھا یہ کہ دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہو اور دل میں دعا کی قبولیت کی طمع بھی، اسی طرح جہنم سے خوف بھی ہو اور جنت کی طمع بھی۔ شاہ عبد القادر ؓ فرماتے ہیں : ”یعنی اللہ پر دلیر مت ہو اور ناامید بھی مت ہو۔“ طمع میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ انسان دعا کے بعد مایوس نہ ہو، جیسا کہ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”تم میں سے کسی کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلدی نہ کرے اور جلدی یہ ہے کہ کہے میں نے اپنے رب سے دعا کی، مگر اس نے قبول نہ کی۔“ [ بخاری، الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم یعجل : 6340 ] کئی صوفیا کہتے ہیں کہ دعا کسی طمع اور خوف کے بغیر محض رب کی رضا کے لیے ہونی چاہیے، حتیٰ کہ ان میں سے بعض نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ جنت کو جلا دوں اور جہنم کو بجھا دوں، تاکہ لوگ کسی خوف اور طمع کے بغیر اللہ کو یاد کریں۔ بعض کہتے ہیں کہ بس اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہوجائے، پھر خواہ مجھے جنت میں بھیج دے یا جہنم میں پھینک دے۔ یہ بات کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے جنت کی دعا مانگتے اور جہنم سے پناہ مانگتے تھے۔ زیر تفسیر آیت بھی اس نظریے کے خلاف ہے اور دیگر بہت سی آیات بھی، مثلاً : (يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا) [ السجدۃ : 16 ] ”وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔“ درحقیقت یہ بات اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے بعض لوگوں نے جنت اور جہنم کو بےوقعت ٹھہرانے کے لیے بنائی ہے۔ جنت کی طمع اور جہنم سے خوف کوئی الگ چیز نہیں ہے، بلکہ جنت اللہ کی رضا ہی سے حاصل ہوگی اور جہنم بھی اسی کے غضب کا نتیجہ ہے جس سے بچنا بھی اس کی رضا ہی سے ممکن ہوگا۔ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ : اس میں ترغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اصل حق دار وہی ہیں جو احسان کرنے والے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری بہتر سے بہتر انداز میں بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں اور اعمال صالحہ پر دوام کرتے ہیں اور ”قریب“ یہ ”فَعِیْلٌ“ کے وزن پر ہے، جب یہ مسافت کے لیے آئے تو اس میں تذکیر و تانیث برابر ہوتی ہے اور اگر نسب کے لیے ہو تو بلا اختلاف ”قَرِیْبَۃٌ“ بولا جاتا ہے۔ یعنی مذکر اور مؤنث میں تاء کے ساتھ فرق کیا جاتا ہے۔ (شوکانی)
Top