Al-Quran-al-Kareem - At-Tawba : 14
قَاتِلُوْهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَیْدِیْكُمْ وَ یُخْزِهِمْ وَ یَنْصُرْكُمْ عَلَیْهِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَۙ
قَاتِلُوْهُمْ : تم ان سے لڑو يُعَذِّبْهُمُ : انہیں عذاب دے اللّٰهُ : اللہ بِاَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھوں سے وَيُخْزِهِمْ : اور انہیں رسوا کرے وَيَنْصُرْكُمْ : اور تمہیں غالب کرے عَلَيْهِمْ : ان پر وَيَشْفِ : اور شفا بخشے (ٹھنڈے کرے) صُدُوْرَ : سینے (دل) قَوْمٍ : لوگ مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔
قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ : ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے عہد توڑنے والے کفار سے لڑنے کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ پانچ وعدے کیے ہیں جو سب کے سب پورے فرمائے، پہلا یہ کہ ”يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ“ یعنی پہلی قوموں پر اللہ کی طرف سے قدرتی آفات کے ذریعے سے عذاب آتا تھا، اب تم ان سے لڑو، اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں انھیں عذاب دے گا، جو کفار کے قتل، زخمی، قید ہونے اور ان سے مال غنیمت کے حصول کی صورت میں ہوگا۔ دوسرا یہ کہ ”يُخْزِهِمْ“ انھیں رسوا کرے گا، ان کی فوجی قوتوں کا گھمنڈ توڑ کر ان کی حکومت کی عزت خاک میں ملا کر انھیں ذلیل و رسوا کرے گا۔ تیسرا یہ کہ ”وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ“ ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں غلبہ عطا کرے گا۔ اسے الگ اس لیے ذکر فرمایا کہ ہوسکتا تھا کہ کفار تو ذلیل ہوجائیں مگر مسلمانوں کے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے۔ چوتھا یہ کہ ”وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ“ تمہارے ان سے لڑنے اور غلبہ پانے سے ان مومنوں کے سینوں کو شفا ملے گی جو ان کفار موذیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم سہتے رہے۔ ان سے مراد وہ مسلمان ہیں جو مکہ اور دوسری جگہوں میں کفار کی ایذا کا نشانہ بنے۔ بعض نے فرمایا کہ ان سے مراد بنو خزاعہ ہیں جنھیں بنو بکر اور قریش نے بد عہدی کرکے سخت نقصان پہنچایا اور واقعی یہ لوگ بھی کفار کے زخم خوردہ لوگوں میں شامل تھے اور پانچواں یہ کہ ”وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ“ ان کے دلوں کے غصے کو دور کرے گا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شفائے صدور ہی کی تاکید ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک الگ نعمت ہے۔ شفائے صدور سے مراد ان ظالموں کا قتل اور ان کی رسوائی ہے اور دلوں کا غصہ دور کرنے سے مراد مسلمانوں کو محکومی کی بےبسی میں جو غصہ کفار پر آتا تھا مگر کچھ کر نہ سکتے تھے، اب فتح و غلبہ کی صورت میں اس غصے کو دور کرنا ہے اور ویسے بھی شفائے قلوب کے بعد بھی ظلم و ستم کے جو آثار غصے کی صورت میں باقی رہتے ہیں الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے واقعات سن کر دل میں غصہ تو آتا ہی ہے، جیسے اب بھارت وکشمیر، فلسطین و فلپائن، برما، عیسائی اور کمیونسٹ ممالک میں مسلمانوں پر ظلم کی داستانیں سن کر دل کو غصہ آتا ہے، کفار پر فتح یاب ہونے سے اس غصے کا بھی مداوا ہوتا ہے۔
Top