Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 25
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِكُمْ١ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا
رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : جو فِيْ نُفُوْسِكُمْ : تمہارے دلوں میں اِنْ : اگر تَكُوْنُوْا : تم ہوگے صٰلِحِيْنَ : نیک (جمع) فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ كَانَ : ہے لِلْاَوَّابِيْنَ : رجوع کرنیوالوں کے لیے غَفُوْرًا : بخشنے والا
تمہارا رب ان چیزوں کو خوب جاننے والا ہے جو تمہارے دلوں میں ہیں، اگر تم نیکی اختیار کرو تو بلاشبہ وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے
یہ جو فرمایا کہ (رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِکُمْ ) (الایۃ) درمنثور میں اس کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت سعید بن جبیر ؓ سے نقل کیا ہے کہ اگر اولاد کی جانب سے ماں باپ کے حقوق میں غفلت سے کوتاہی ہوجائے اور دل سے فرمانبردار ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور توبہ کرے اللہ تعالیٰ رجوع کرنے والوں کو معاف فرمانے والا ہے۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ سب کاموں میں اللہ جل شانہ کو کون سا کام زیادہ پیارا ہے ؟ آپ نے فرمایا بروقت نماز پڑھنا (جو اس کا وقت مستحب ہے) میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب اعمال سے زیادہ محبوب ہے ؟ آپ نے فرمایا ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرنا، میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب اعمال سے زیادہ پیارا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 58 از بخاری و مسلم) معلوم ہوا کہ اللہ جل شانہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل بروقت نماز پڑھنا اور اس کے بعد سب سے زیادہ محبوب عمل یہ ہے کہ انسان اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ پھر تیسرے نمبر پر جہاد فی سبیل اللہ کو فرمایا معلوم ہوا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ ماں باپ ذریعہ جنت اور ذریعہ دوزخ ہیں حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور اقدس ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ والدین کا ان کی اولاد پر کیا حق ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ دونوں تیری جنت یا تیری جہنم ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 421 از ابن ماجہ) مطلب یہ ہے کہ ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرتے رہو، زندگی بھر ان کے آرام و راحت کا دھیان رکھو، جان و مال سے ان کی فرمانبرداری میں لگے رہو، تمہارا یہ عمل جنت میں جانے کا سبب بنے گا اور اگر تم نے ان کی نافرمانی کی ان کو ستایا دکھ دیا تو وہ تمہارے دوزخ کے داخلہ کا سبب بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ماں باپ کی رضا مندی میں ہے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رضا مندی ماں باپ کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 419) یعنی ماں باپ کو راضی رکھا تو اللہ پاک بھی راضی ہے اور ماں باپ کو ناراض کیا تو اللہ بھی ناراض ہوگا، کیونکہ اللہ جل شانہ نے ماں باپ کو راضی رکھنے کا حکم فرمایا ہے جب ماں باپ کو ناراض رکھا تو اللہ کے حکم کی نافرمانی ہوئی جو اللہ جل شانہ کی ناراضگی کا باعث ہوئی۔ واضح رہے کہ یہ اسی صورت میں ہے جبکہ ماں باپ کسی ایسے کام کے نہ کرنے سے ناراض ہوں جو خلاف شرع نہ ہو، اگر خلاف شرع کسی کام کا حکم دیں تو ان کی فرمانبرداری جائز نہیں ہے۔ اس ناراضگی میں اللہ جل شانہ کی ناراضگی نہ ہوگی اس صورت میں اگر وہ ناراض بھی ہوجائیں تو ناراضگی کی پرواہ نہ کرے، کیونکہ اللہ جل شانہ کی رضا مندی اس کے احکام پر عمل کرنے میں ہے اس کے حکم کے خلاف کسی کی فرمانبرداری جائز نہیں ہے۔ والد جنت کے دروازوں میں سے بہتر دروازہ ہے حضرت ابو الدرداء ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے حضور اقدس ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ والد جنت کے دروازوں میں سے سب سے اچھا دروازہ ہے اب تو (اس کی فرمانبرداری کرکے) اس دروازہ کی حفاظت کرلے یا (نافرمانی کرکے) اس کو ضائع کردے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 420) باپ کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین دعائیں مقبول ہیں ان (کی مقبولیت) میں کوئی شک نہیں (1) والد کی دعا اولاد کے لیے (2) مسافر کی دعا (3) مظلوم کی دعا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 195، از ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ) اس حدیث سے والد کی دعاء کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ملا علی قاری مرقات شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں، کہ گو اس میں والدہ کا ذکر نہیں، لیکن ظاہر ہے کہ جب والد کی دعا ضرور قبول ہوگی تو والدہ کی دعا بھی بطریق اولیٰ ضرور قبول ہوگی، اولاد کو چاہیے ماں باپ کی خدمت کرتی رہے اور دعا لیتی رہے، اور کوئی ایسی حرکت نہ کرے جس سے ان کا دل دکھے اور ان میں سے کوئی دل سے یا زبان سے بددعا کر بیٹھے۔ کیونکہ جس طرح ان کی دعا قبول ہوتی ہے اسی طرح ان کے دکھے دل کی بددعا بھی لگ جاتی ہے، اگرچہ عموماً شفقت کی وجہ سے وہ بددعا سے بچتے ہیں، ان کی دعا سے دنیا و آخرت سدھر سکتی ہے اور بددعا سے دونوں جہانوں کی بربادی ہوسکتی ہے۔ ماں باپ کے اکرام و احترام کی چند مثالیں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس کے ساتھ ایک بڑے میاں تھے آپ نے دریافت فرمایا کہ تیرے ساتھ یہ کون ہیں ؟ عرض کیا کہ یہ میرے والد ہیں، آپ نے فرمایا کہ باپ کے اکرام و احترام کا خیال رکھ ہرگز اس کے آگے مت چلنا اور اس سے پہلے مت بیٹھنا اور اس کا نام لے کر مت بلانا اور اس کی وجہ سے (کسی کو) گالی مت دینا۔ (تفسیر درمنثور ص 171، ج 4) ماں باپ کا احترام و اکرام دل سے بھی کرے اور زبان سے بھی، عمل سے بھی اور برتاؤ سے بھی، اس حدیث پاک میں اکرام و احترام کی چند جزئیات ارشاد فرمائی ہیں۔ اول تو یہ فرمایا کہ باپ کے آگے مت چلنا دوسرے یہ فرمایا کہ جب کسی جگہ بیٹھنا ہو تو باپ سے پہلے مت بیٹھنا تیسرے یہ فرمایا کہ باپ کا نام لے کر مت پکارنا، چوتھے یہ کہ باپ کی وجہ سے کسی کو گالی مت دینا مطلب یہ کہ اگر کوئی شخص تمہارے باپ کو ناگوار بات کہہ دے تو اس کو اور اس کے باپ کو گالی مت دینا۔ کیونکہ اس کے جواب میں وہ پھر تمہارے باپ کو گالی دے گا اور اس طرح سے تم اپنے باپ کو گالی دلانے کا سبب بن جاؤ گے واضح رہے کہ یہ نصیحتیں باپ ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں والدہ کے حق میں بھی ان کا خیال رکھنا لازم ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ باپ کے آگے مت چلنا اس سے وہ صورت مستثنیٰ ہے جس میں باپ کی خدمت کی وجہ سے آگے چلنا پڑے مثلاً راستہ دکھانا ہو یا اور کوئی ضرورت درپیش ہو۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے رزق اور عمر دونوں بڑھتے ہیں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز کرے اور اس کا رزق بڑھائے اس کو چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ (درمنثور ص 173 ج 14 از بیہقی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اور ان کی خدمت میں لگے رہنے سے عمر دراز ہوتی ہے اور رزق بڑھتا ہے بلکہ ماں باپ کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے سے بھی عمر دراز ہوتی ہے اور وسیع رزق نصیب ہوتا ہے نئی نسل کے بہت سے نوخیز نوجوان دوست احباب بیوی بچوں پر تو بڑھ چڑھ کر خرچ کرتے ہیں اور ماں باپ کے لیے پھوٹی کوڑی خرچ کرنے سے بھی ان کا دل دکھتا ہے یہ لوگ آخرت کے ثواب سے تو محروم ہوتے ہی ہیں دنیا میں بھی نقصان اٹھاتے ہیں ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت گزاری اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے سے جو عمر میں درازی اور رزق میں وسعت ہوتی ہے اس سے محروم ہوتے ہیں۔ ماں باپ کے اخراجات کے لیے محنت کرنے کا ثواب حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک ایسے شخص کا (مسجد نبوی کے قریب) گذر ہوا جس کا جسم دبلا پتلا تھا اس کو دیکھ کر حاضرین نے کہا کہ کاش یہ جسم اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد میں) دبلا ہوا ہوتا یہ سن کر حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ شاید وہ اپنے بوڑھے ماں باپ پر محنت کرتا ہو (اور ان کی خدمت میں لگنے اور ان کے لیے روزی کمانے کی وجہ سے دبلا ہوگیا ہو) اگر ایسا ہے تو وہ فی سبیل اللہ ہے (پھر فرمایا کہ) شاید وہ چھوٹے بچوں پر محنت کرتا ہو ( یعنی ان کی خدمت اور پرورش اور ان کے لیے رزق مہیا کرنے میں دبلا ہوگیا ہو) اگر ایسا ہے تو فی سبیل اللہ ہے (پھر فرمایا کہ) شاید وہ اپنے نفس پر محنت کرتا ہو (اور اپنی جان کے لیے محنت کرکے روزی کماتا ہو) تاکہ اپنے نفس کو لوگوں سے بےنیاز کردے اور مخلوق سے سوال نہ کرنا پڑے) اگر ایسا ہے تو فی سبیل اللہ ہے۔ (درمنثور ص 170 ج 14 از بیہقی) معلوم ہوا کہ ماں باپ اور آل اولاد بلکہ اپنے نفس کے لیے حلال روزی کمانا بھی فی سبیل اللہ میں شمار ہے۔ ماں باپ کی خدمت نفلی جہاد سے افضل ہے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور جہاد میں شریک ہونے کی اجازت مانگی، آپ نے فرمایا کہ کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں زندہ ہیں ! آپ نے فرمایا انہیں میں جہاد کر (یعنی ان کی خدمت میں جو تو محنت اور کوشش اور مال خرچ کرے گا یہ بھی ایک طرح کا جہاد ہوگا) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ واپس جا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا رہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 331 از بخاری و مسلم) حضرت معاویہ بن جاہمہ ؓ نے بیان فرمایا کہ میرے والد حضرت جاہمہ ؓ حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے جہاد کرنے کا ارادہ کیا اور آپ سے مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا آپ نے فرمایا کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں زندہ ہے آپ نے فرمایا بس تو اسی کی خدمت میں لگا رہ کیونکہ جنت اس کے پاؤں کے پاس ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 431 از احمد، نسائی، بیہقی) ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں (جبکہ جہاد فرض عین نہ ہو) جہاد کی شرکت کے لیے جانے سے ماں باپ کی خدمت کرنا زیادہ افضل ہے اگر دوسرا بھائی بہن ان کی خدمت کے لیے موجود نہ ہو تو ان کی خدمت میں رہنے کی اہمیت اور زیادہ ہوجائے گی۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں ایک شخص یمن سے ہجرت کرکے آیا آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے سرزمین شرک سے تو ہجرت کرلی لیکن جہاد (باقی) ہے تو کیا یمن میں تمہارا کوئی (قریبی) عزیز ہے ؟ عرض کیا کہ والدین موجود ہیں، آپ نے سوال فرمایا کہ انہوں نے تم کو اجازت دی ہے ؟ عرض کیا نہیں فرمایا بس تم واپس جاؤ اور ان سے اجازت لو اگر اجازت دیں تو جہاد میں شرکت کرلینا ورنہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنا۔ (درمنثور ص 175، ج 4 عن احمد والحاکم، وقال صححہ الحاکم) ہجرت کی بیعت کے لیے والدین کو روتا چھوڑنے والے کو نصیحت حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا اور عرض کیا کہ میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں اور میں نے اپنے والدین کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ دونوں (میری جدائی کی وجہ سے) رو رہے تھے آپ نے فرمایا کہ ان کے پاس واپس جا اور ان کو ہنسا جیسا کہ تو نے ان کو رلایا۔ (مستدرک حاکم ص 153‘ ج 4 ابوداود وغیرہ) یہ شخص حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں نیک نیتی سے حاضر ہوا یعنی ہجرت پر بیعت ہونے کے لیے سفر کرکے آیا تھا اول ہجرت کی نیت پھر حضور اقدس ﷺ سے اس عمل پر بیعت ہونا یہ سب مبارک اور نیک عمل ہے جس میں کوئی شک نہیں لیکن ماں باپ اس کے سفر کرنے پر راضی نہ تھے وہ اس شخص کے سفر میں جانے سے بہت بےچین ہوئے اور جدائی کے صدمہ سے رونے لگے۔ جب حضور اقدس ﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا کہ واپس جا اور والدین کو ہنسا جیسا کہ تو نے ان کو رلایا ہے۔ اس سے ماں باپ کی دلداری کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوئی یہ اس زمانہ کی بات ہے جب ہجرت کرنا فرض نہ تھا اسلام خطہ عرب میں پھیل چکا تھا مسلمان ہر جگہ امن وامان کے ساتھ اسلام کے مطابق زندگی گزار سکتے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسا کام کرنا جس سے ماں باپ رنجیدہ ہوں اور صدمہ کی وجہ سے روئیں گناہ ہے، اور ایسا کام کرنا جس سے ماں باپ خوش ہوں اور جس سے ان کو ہنسی آئے ثواب کا کام ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ بکاء الوالدین من العقوق والکبائر (یعنی ماں باپ کا رونا عقوق اور کبائر میں سے ہے) جبکہ اولاد ایسا کام کرے جس سے ایذا پہنچنے کی وجہ سے رونے لگیں۔ (الادب المفرد للبخاری) حضرت اویس قرنی ؓ یمن کے رہنے والے تھے ان کے بارے میں حضور اقدس ﷺ نے خیر التابعین فرمایا اور حضرت عمر ؓ سے یہ بھی فرمایا کہ ان سے اپنے لیے دعائے مغفرت کرانا انہوں نے عہد نبوت میں اسلام قبول کرلیا تھا لیکن والدہ کی خدمت کی وجہ سے بارگاہ رسالت میں حاضر نہ ہوسکے اور شرف صحابیت سے محروم ہوگئے۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے ان کے اس عمل پر نکیر نہیں فرمائی بلکہ قدردانی فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ان سے دعا کرانا، والدین کی خدمت کا جو مرتبہ ہے وہ اس سے ظاہر ہے، صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اویس قرنی کی والدہ ہے اس کے ساتھ انہوں نے حسن سلوک کیا اگر اویس (کسی بات میں) اللہ پر قسم کھالے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی قسم پوری فرمائے۔ ماں باپ کی خدمت نفلی حج اور عمرہ سے کم نہیں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد کرنے کی خواہش رکھتا ہوں اور اس پر قادر نہیں (ممکن ہے کہ یہ صاحب بہت کمزور ہوں یا بعض اعضاء صحیح سالم نہ ہوں جس کی وجہ سے یہ کہا کہ جہاد پر قادر نہیں ہوں) ان کی بات سن کر آنحضرت سرور عالم ﷺ نے سوال فرمایا کیا تیرے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے ؟ عرض کیا والدہ زندہ ہے، آپ نے فرمایا کہ بس تو اپنی والدہ (کی خدمت اور فرمانبرداری) کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر جب تو اس پر عمل کرے گا تو تو حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اور جہاد کرنے والا ہوگا جب تیری ماں تجھے بلائے تو (اس کی فرمانبرداری کے بارے میں) اللہ سے ڈرنا (یعنی نافرمانی مت کرنا) اور والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرنا۔ (درمنثور ص 173 ج 4 از بیہقی وغیرہ) اس حدیث پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ والدہ تم کو بلائے تو اس کی اطاعت کرو، عام حالات میں جب بھی ماں باپ بلائیں ان کے پکارنے پر حاضر ہوجائے اور جو خدمت بتائیں انجام دیدے اگر نماز میں مشغول ہو اور اس وقت والدین میں سے کوئی آواز دے تو اس کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ ماں باپ اگر کسی مصیبت کی وجہ سے پکاریں مثلاً پاخانہ وغیرہ کی ضرورت سے آتے جاتے پاؤں پھسل جائے اور دونوں میں سے کوئی گرجائے یا گرجانے کا قوی اندیشہ ہے اور کوئی دوسرا اٹھانے والا اور سنبھالنے والا نہیں ہے تو ان کو اٹھانے اور سنبھالنے کے لیے فرض نماز کا توڑ دینا واجب ہے اور اگر انہوں نے کسی ایسی ضرورت کے لیے نہیں پکارا جس کا اوپر ذکر ہوا بلکہ یوں ہی پکار لیا تو فرض نماز توڑنا درست نہیں ہے اور اگر کسی نے سنت یا نفل نماز شروع کر رکھی ہے اور ماں باپ نے آواز دی لیکن ان کو معلوم نہیں ہے کہ فلاں لڑکا یا لڑکی نماز میں ہے تو اس صورت میں نماز توڑ کر جواب دینا واجب ہے خواہ کسی ضرورت سے پکاریں خواہ بلاضرورت یوں ہی پکار لیں اس صورت میں اگر نماز نہ توڑی اور ان کا جواب نہ دیا تو گناہ ہوگا البتہ اگر ان کو معلوم ہے کہ نماز میں ہے اور یوں ہی بلاضرورت پکارا ہے تو نماز نہ توڑے۔ (ذکرہ الشامی فی باب ادراک الفریضہ) والدین کے ستانے کی سزا دنیا میں مل جاتی ہے حضرت ابوبکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ چاہتا ہے تو انہیں معاف فرما دیتا ہے مگر والدین کے ستانے کا گناہ ایسا ہے جس کی سزا دنیا ہی میں موت سے پہلے دے دیتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 412 از شعب الایمان للبیہقی) والدین کی نافرمانی بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بڑے بڑے گناہ یہ ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا۔ (2) والدین کی نافرمانی کرنا۔ (3) کسی جان کو قتل کردینا (جس کا قتل کرنا قاتل کے لیے شرعاً حلال نہ ہو) ۔ (4) جھوٹی قسم کھانا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 17 از بخاری) کبیرہ گناہوں کی فہرست طویل ہے اس حدیث میں ان گناہوں کا ذکر ہے جو بہت بڑے ہیں ان میں شرک کے بعد ہی عقوق الوالدین کو ذکر فرمایا ہے، لفظ عقوق میں بہت عموم ہے ماں باپ کو کسی بھی طرح ستانا، قول یا فعل سے ان کو ایذا دینا دل دکھانا نافرمانی کرنا حاجت ہوتے ہوئے ان پر خرچ نہ کرنا یہ سب عقوق میں شامل ہے پہلے حدیث ذکر کی جاچکی ہے جس میں محبوب ترین اعمال کا بیان ہے اس میں بروقت نماز پڑھنے کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا درجہ بتایا ہے بالکل اسی طرح بڑے بڑے کبیرہ گناہوں کی فہرست میں شرک کے بعد ماں باپ کے ستانے اور ان کی نافرمانی کرنے کو شمار فرمایا ہے ماں باپ کی نافرمانی اور ایذا رسانی کس درجہ کا گناہ ہے اس سے صاف ظاہر ہے۔ وہ شخص ذلیل ہو جس ماں باپ نے جنت میں داخل نہ کرایا حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے (ایک مرتبہ) ارشاد فرمایا کہ وہ ذلیل ہو، وہ ذلیل ہو، وہ ذلیل ہو، عرض کیا گیا کون یا رسول اللہ ﷺ ؟ فرمایا جس نے اپنے ماں باپ کو یا دونوں میں کسی ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 418 از مسلم) پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا جنت میں داخل ہونے کا بہترین ذریعہ ہے اور عقوق الوالدین یعنی ماں باپ کی نافرمانی اور ایذا رسانی دوزخ میں جانے کا ذریعہ ہے، زندگی میں خصوصاً نوجوانی میں انسان سے بہت سے صغیرہ، کبیرہ گناہ سرزد ہوجاتے ہیں اور ماں باپ کی نافرمانی بھی ہوجاتی ہے اگر کسی گنہگار بندہ کو بوڑھے ماں باپ میسر آجائیں یعنی اس کی موجودگی میں بوڑھے ہوجائیں تو گذشتہ گناہوں کے کفارہ کے لیے اور دوزخ سے آزاد ہو کر جنتی بننے کے لیے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کو ہاتھ سے نہ جانے دے جس شخص نے ماں باپ کو بوڑھا پایا لیکن ان کی خدمت نہ کی ان کی دعائیں نہ لیں ان کا دل دکھاتا رہا اور جوش جوانی میں ان کی طرف سے غفلت برتتا رہا جس کی وجہ سے دوزخ کا مستحق ہوگیا ایسے شخص کے بارے میں حضور اقدس ﷺ نے تین مرتبہ بددعا دی اور فرمایا کہ یہ شخص (دنیا آخرت میں ذلیل و خوار ہو) لا جعلنا اللّٰہ منھم جس کے ماں باپ زندہ ہیں ان کو زندگی کی قدر کرے اور ان کو راضی رکھ کر جنت کمالے۔ ماں باپ کی طرف گھور کر دیکھنا بھی عقوق میں شامل ہے حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس شخص نے اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا جس نے والد کو تیز نظر سے دیکھا۔ (درمنثور ص 171 ج 14 از بیہقی فی شعب الایمان) اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کو تیز نظروں سے دیکھنا بھی ان کے ستانے میں داخل ہے، حضرت حسن ؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ عقوق یعنی ماں باپ کے ستانے کی کیا حد ہے ؟ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ ان کو (خدمت اور مال سے) محروم کرنا اور ان سے ملنا جلنا چھوڑ دینا اور ان کے چہرے کی طرف تیز نظر سے دیکھنا یہ سب عقوق ہے۔ (درمنثور از ابن ابی شیبہ) حضرت عروہ ؓ نے بیان فرمایا کہ اگر ماں باپ تجھے ناراض کردیں یعنی ایسی بات کہہ دیں جس سے تجھے ناگواری ہو تو ان کی طرف ترچھی نظر سے مت دیکھنا کیونکہ انسان جب کسی پر غصہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے تیز نظر سے ہی اس کا پتہ چلتا ہے۔ (درمنثور عن ابن ابی حاتم) معلوم ہوا کہ ماں باپ کی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے اعضاء وجوارح سے بھی فرمانبرداری انکساری ظاہر کرنا چاہیے۔ رفتار و گفتار اور نظر سے کوئی ایسا عمل نہ کرے جس سے ان کو تکلیف پہنچے۔ ماں باپ کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے، حاضرین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا کوئی شخص اپنے باپ کو گالی دے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں (اس کی صورت یہ ہے کہ) کسی دوسرے کے باپ کو گالی دے تو وہ پلٹ کر گالی دینے والے کے باپ کو گالی دیدے۔ اور کسی دوسرے شخص کی ماں کو گالی دے تو پلٹ کر گالی دینے والے کی ماں کو گالی دے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 419 از بخاری و مسلم) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ گالی دینے والے نے اپنی ماں یا اپنے باپ کو تو گالی نہ دی لیکن چونکہ دوسرے سے گالی دلوانے کا ذریعہ بن گیا اس لیے خود گالی دینے والوں میں شمار ہوگیا۔ اس کو حضور انور ﷺ نے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا۔ اسی سے سمجھ لیا جائے کہ جو شخص اپنے ماں باپ کو خود اپنی زبان سے گالی دے گا ظاہر ہے کہ اس کا گناہ عام کبیرہ گناہوں سے بڑھ کر ہوگا۔ حضرات صحابہ کرام ؓ کو اپنے ماحول کے اعتبار سے یہ بات بڑے تعجب کی معلوم ہوئی کہ کوئی شخص اپنے والدین کو گالی دے۔ ان کے تعجب پر حضور ﷺ نے گالی کا ذریعہ اور سبب بننے والی صورت بتائی جو اس زمانہ میں پیش آسکتی تھی، لیکن ہمارے اس دور میں تو ایسے لوگ موجود ہیں جو خود اپنی زبان سے ماں باپ کو گالی دیتے ہیں اور برے الفاظ اور برے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ماں باپ کے لیے دعا اور استغفار کرنے کی وجہ سے نافرمان اولاد کو فرمانبردار لکھ دیا جاتا ہے حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ (ایسا بھی ہوتا ہے) کہ بندہ کے ماں باپ وفات پاجاتے ہیں یا دونوں میں سے ایک اس حال میں فوت ہوجاتا ہے کہ یہ شخص ان کی زندگی میں ان کی نافرمانی کرتا رہا اور ستاتا رہا۔ اب موت کے بعد ان کے لیے دعا کرتا رہتا ہے اور ان کے لیے استغفار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ جل شانہ اس کو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں میں لکھ دیتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 421) ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنے سے ان کے درجات بلند ہوتے ہیں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ بلاشبہ اللہ جل شانہ جنت میں نیک بندہ کا درجہ بلند فرما دیتا ہے وہ عرض کرتا ہے کہ اے رب یہ درجہ مجھے کہاں سے ملا ہے ؟ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے کہ تیری اولاد نے جو تیرے لیے مغفرت کی دعا کی یہ اس کی وجہ سے ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 205 از احمد) معلوم ہوا کہ ماں باپ کے لیے دعا کرنا بہت بڑا حسن سلوک ہے، اور یہ حسن سلوک ایسا ہے کہ جو موت کے بعد بھی جاری رکھا جاسکتا ہے، کم سے کم ہر فرض نماز کے بعد ماں باپ کے لیے دعا کردیا کرے اس میں کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا۔ اور ان کو بڑا فائدہ پہنچ جاتا ہے۔
Top