Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 25
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِكُمْ١ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا
رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : جو فِيْ نُفُوْسِكُمْ : تمہارے دلوں میں اِنْ : اگر تَكُوْنُوْا : تم ہوگے صٰلِحِيْنَ : نیک (جمع) فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ كَانَ : ہے لِلْاَوَّابِيْنَ : رجوع کرنیوالوں کے لیے غَفُوْرًا : بخشنے والا
جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تمہارا پروردگار اس سے بخوبی واقف ہے، اگر تم نیک ہو گے تو وہ رجوع لانے والوں کو بخش دینے والا ہے
25۔” ربکم اعلم بما فی نفوسکم “ والدین کی فرمانبرداری کی نیت اور تعظیم کے اندرونی خیال سے اللہ خوب واقف ہے۔” ان تکونوا صالحین “ والدین کے ساتھ کوئی خطاء ہوجانے کے بعد ان کے ساتھ نیکی کا ارادہ کھے یا توبہ کرلے تو وہ اس آیت کے حکم میں نہیں ہوگا ۔” فانہ کان للاوابین “ اس نافرمانی کے بعد ” غفورا ً “ بخشنے والا ہے۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ اس آیت میں وہ لوگ مراد ہیں جس سے بےسوچے بلا ارادہ اچانک ماں باپ سے کوئی بےادبی ، بد سلوکی ہوجائے اور نیت ان کی نیکی ہو تو اس کی پکڑ نہیں گی۔ سعید بن مسیب کا قول ہے کہ اداب وہ شخص ہے جو گناہ کرنے کے بعد توبہ کرلے ، پھر گناہ کرے اور توبہ کرلے اور پھر گناہ کرے اور گناہ کے پیچھے توبہ کرلے۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ خیر کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والا اداب ہے۔ ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہر حال میں مصیبت کے وقت اور حادثے کے وقت ، سعید بن جبیر ؓ کی روایت ہے حضرت ابن عباس ؓ کا قول اس طرح آیا ہے کہ اوابین سے مراد ہے اللہ کی پاکی بیان کرنے والے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں سے فرمایا تھا ” یا جبال اوبی “ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد نمازی ہیں ۔ عون عقیلی کا قول ہے کہ جو چاشت کی نماز پڑھنے والے ہیں۔
Top