Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 27
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ١ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا
اِنَّ : بیشک الْمُبَذِّرِيْنَ : فضول خرچ (جمع) كَانُوْٓا : ہیں اِخْوَانَ : بھائی (جمع) الشَّيٰطِيْنِ : شیطان وَكَانَ : اور ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان لِرَبِّهٖ : اپنے رب کا كَفُوْرًا : ناشکرا
بلاشبہ مالوں کو بےجا اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے
رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں پر مال خرچ کرنے کا حکم فرمانے کے بعد فضول خرچی اور بےجا مال اڑانے سے منع فرمایا، سخاوت تو شریعت اسلامیہ میں محمود ہے لیکن مال کو ضائع کرنا بےجا اڑانا فضول خرچی کرنا ممنوع ہے، بہت سے لوگ گناہوں میں خرچ کردیتے ہیں اور بیوی بچوں کی فرمائشوں میں بےجا مال صرف کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنے سر قرضے تھوپتے رہتے ہیں جن میں بعض مرتبہ سود کا لین دین بھی کر بیٹھتے ہیں اور اپنی جان کو مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔ ایسے لوگ آیت کریمہ کے مضمون پر غور کریں۔ دوسرے مقام میں فرمایا ہے۔ (وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ) (اور اسراف نہ کرو بلاشبہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا) اور یہاں فضول خرچ کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ شیطانوں کے بھائی ہیں شیطان ہی ان سے فضول مال خرچ کرواتا ہے اور گناہوں میں لگواتا ہے اس کی بات ماننے والے اس کے بھائی ہیں یعنی اللہ کی نافرمانی میں شیطان کی طرح سے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر (ص 36 ج 3) میں حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ تبذیر یہ ہے کہ حق کے علاوہ دوسری چیزوں میں مال خرچ کیا جائے اور حضرت مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا سارا مال حق میں خرچ کردے تو یہ تبذیر نہیں اور ایک مد بھی ناحق خرچ کردے تو یہ تبذیر ہے۔ مزید فرمایا (وَکَان الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا) (اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ ) جو لوگ شیطان کی راہ پر چلتے ہیں مال فضول اڑاتے ہیں وہ بھی ناشکرے ہی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا نعمتیں عطا فرمائیں ان کو سوچ سمجھ کر میانہ روی کے ساتھ خرچ کرنا لازم ہے، فرائض وواجبات میں خرچ کرے، نفلی صدقات دے اور گناہوں میں مال نہ لگائے، یہ کتنی بڑی بیوقوفی ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ نے جو مال عطا فرمایا اسے گناہوں میں لگا دیا یا بیچا خرچ کردیا، جس نے مال دیا اسی کی نافرمانی کی اس سے بڑھ کر کیا ناشکری ہوگی، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر دانی یہ ہے کہ ان نعمتوں کو نعمت دینے والے کے حکم کے مطابق خرچ کیا جائے۔
Top