Madarik-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 186
مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗ١ؕ وَ یَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
مَنْ : جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَا : تو نہیں هَادِيَ : ہدایت دینے والا لَهٗ : اس کو وَيَذَرُهُمْ : وہ چھوڑ دیتا ہے انہیں فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بہکتے ہیں
جن کو اللہ گمراہ کر دے ان کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ وہ ان کو ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔
اگلی آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے لیے تسلی بھی ہے اور مشرکین مکہ کے لیے آخری وارننگ بھی۔ ارشاد فرمایا : مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلاَ ھَادِیِ لَہٗط وَیَذَرُھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ ۔ (الاعراف : 186) ” جن کو اللہ گمراہ کر دے ان کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ وہ ان کو ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے “۔ آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو تسلی اور مشرکین کو وارننگ آنحضرت ﷺ کی مسلسل اور بےپناہ تبلیغی کاوشوں کے باوجود بھی جب مشرکین مکہ ایمان نہیں لاتے تھے تو آپ پر سخت انقباض کی کیفیت طاری ہوتی آپ نہایت مضمحل اور پریشان ہوجاتے اور کبھی کبھی آپ کو یہ فکر مندی ہوتی کہ شائد میری اور میرے ساتھیوں کی تبلیغی مساعی میں کوئی کمزوری ہے جس کی وجہ سے لوگ ایمان قبول نہیں کر رہے اس احساس کے ساتھ آپ کی پریشانیوں میں اور اضافہ ہوجاتا یہاں آپ کو اور مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ لوگ اگر ایمان نہیں لا رہے تو اس میں کسی کوتاہی کا دخل نہیں آپ نے اپنا فرض ہمت سے بڑھ کر ادا کیا ہے لیکن ہدایت و ضلالت کا سر رشتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے وہ نہ چاہے اسے کوئی دوسرا ہدایت نہیں دے سکتا اور مزید یہ بات بھی کہ اللہ کسی کو نہ بےسبب ہدایت دیتا ہے اور نہ بےسبب گمراہ کرتا ہے اس نے ایک قانون نافذ کر رکھا ہے کہ جو آدمی اپنے فہم و شعور کو استعمال کر کے ہدایت اختیار کرنے کے لیے بڑھے گا میں اس کے لیے اسباب مہیا کر دوں گا وہ جیسے جیسے آگے بڑھتا جائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانیاں فراہم کرتا جائے گا اسی طرح جو آدمی گمراہی کا راستہ اختیار کرلیتا ہے اور اللہ کی عطا کردہ فہم و شعور کی قوتوں کو بروئے کار لا کر ہدایت قبول کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اس کا سفر الٹی سمت میں جاری رہتا ہے تو وہ اللہ کے اس قانون کے تحت ہدایت سے محروم کردیا جاتا ہے وہ جیسے جیسے ہدایت سے دور ہٹتا جاتا ہے پروردگار اس کے لیے اور دوریاں پیدا فرماتے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ زبردستی کسی کو نہ ہدایت دیتے ہیں نہ گمراہ کرتے ہیں۔ آدمی اپنی آزادی اور سوچ سمجھ کے ساتھ جو راستہ اختیار کرتا ہے قدرت اسی راستے کے لیے اس کی مدد کرتی ہے چناچہ یہاں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ انھوں نے اگر سرکشی اور روگردانی کو اپنا رویہ بنا لیا ہے تو آپ پریشان نہ ہوں یہ اللہ کے قانون کی گرفت میں آچکے ہیں اس لیے اب ہدایت انھیں نصیب نہیں ہوسکتی اور جسے اللہ ہدایت نہ دے اسے دنیا میں اور کوئی شخص ہدایت نہیں دے سکتا اور ایک طرح سے مشرکینِ مکہ کو وارننگ بھی دی جا رہی ہے کہ ہم نے تمہیں اگرچہ مہلت دے رکھی ہے لیکن یہ مت سمجھو کہ اس مہلت سے کوئی فائدہ اٹھا سکو گے کیونکہ تمہاری بھلائی اور عاقبت کا دارومدار تمہارے اپنے رویے کی اصلاح پر ہے اگر تم اصلاح کی کوشش نہیں کرو گے تو تمہاری محرومی کا فیصلہ کردیا جائے گا اس کے بعد تم ہر طرح کی ہدایت کے امکان سے محروم ہوجاؤ گے۔ پروردگار تمہیں تمہاری سرکشی کے حوالے کر دے گا تم اندھوں کی طرح ٹامکٹوئیاں مارتے پھرو گے لیکن تمہارے لیے کوئی راستہ نہیں کھلے گا۔ اگلی آیت کریمہ میں مشرکین مکہ کے ایک سوال کا ذکر اور اس کا جواب ہے۔
Top