Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 27
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ١ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا
اِنَّ : بیشک الْمُبَذِّرِيْنَ : فضول خرچ (جمع) كَانُوْٓا : ہیں اِخْوَانَ : بھائی (جمع) الشَّيٰطِيْنِ : شیطان وَكَانَ : اور ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان لِرَبِّهٖ : اپنے رب کا كَفُوْرًا : ناشکرا
کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے پروردگار (کی نعمتوں) کا کفر ان کرنے والا (یعنی ناشکرا) ہے
اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَان الشَّيٰطِيْنِ : درحقیقت مال کو برباد کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ‘ یعنی شرارت میں شیطانوں کی طرح ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی قوم کے طریقہ کا پابند ہوجائے تو وہ اس قوم کا بھائی ہے۔ وَكَان الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا : اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ یعنی منکر نعمت ہے کفر اور ناشکری میں بہت بڑھ چڑھ کر ہے اس لئے اس کی پیروی درست نہیں۔ اہل تحقیق کا قول ہے کہ کسی منعم کی عطا کردہ نعمت کو اس کی رضامندی کے زیر اثر صرف کرنا شکر ہے اور نافرمانی کے راستے میں صرف کرنا تبذیر ہے۔ گویا تبذیرشکر کی ضد ہے۔ لامحالہ تبذیر کرنے والا ناشکرا ہوگا۔ سعید بن منصور نے عطاء خراسانی کی روایت سے بیان کیا ہے کہ قبیلۂ مزنیہ کے کچھ لوگ خدمت گرامی میں حاضر ہو کر (جہاد میں شرکت کے لئے) کچھ سواریوں کے طلبگار ہوئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا میرے پاس کوئی سواری موجود نہیں کہ تم کو دے سکوں (جہاد سے محروم رہنے کا جب ان لوگوں کو یقین ہوگیا) تو رنج کی وجہ سے روتے ہوئے لوٹ گئے ان کو خیال ہوا کہ شاید رسول اللہ ﷺ : ہم سے ناراض ہیں اسی لئے ہم کو سواریاں نہیں عطا فرمائیں۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top