Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 28
وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا
وَاِمَّا : اور اگر تُعْرِضَنَّ : تو منہ پھیر لے عَنْهُمُ : ان سے ابْتِغَآءَ : انتظار میں رَحْمَةٍ : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : اپنا رب تَرْجُوْهَا : تو اس کی امید رکھتا ہے فَقُلْ : تو کہہ لَّهُمْ : ان سے قَوْلًا مَّيْسُوْرًا : نرمی کی بات
اور اگر تو اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کی تو امید رکھتا ہے، ان لوگوں کی طرف سے پہلو تہی کرے تو ان سے نرم بات کہہ دینا
بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ذوی القربی اور مساکین اور مسافرین کو دینے کے لیے اپنے پاس مال نہیں ہوتا یا تھوڑا بہت ہوتا ہے ایسے موقع پر جو لوگ امیدوار ہوتے ہیں لیکن ان کی مالی خدمت کرنے سے معذوری اور مجبوری ہوتی ہے مگر ساتھ ہی خرچ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ سے یہ امید بھی بندھی ہوئی ہوتی ہے کہ انشاء اللہ مال آجائے گا ایسے موقع پر ان لوگوں سے اچھے الفاظ میں اور نرم لہجے میں معذرت کرلی جائے ان کی سرزنش نہ کرے اور ایسے الفاظ نہ کہے جن سے انہیں دکھ پہنچے، مفسر ابن کثیر (فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ای عدھم وعدا بسھولۃ ولین۔ لکھتے ہیں کہ حضرت بلال اور خباب (فقرائے صحابہ) کبھی کبھی اپنی ضرورت کے لیے آنحضرت ﷺ سے سوال کرلیا کرتے تھے کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ کے پاس ان کے دینے کے لیے کچھ نہ ہوتا تھا آپ ان کی طرف سے شرم کے مارے اعراض فرما لیتے تھے زبانی طور پر کوئی جواب نہیں دیتے تھے اس پر آیت (وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمُ ابْتِغَآءَ ) (الآیۃ) نازل ہوئی۔
Top