Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 27
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ١ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا
اِنَّ : بیشک الْمُبَذِّرِيْنَ : فضول خرچ (جمع) كَانُوْٓا : ہیں اِخْوَانَ : بھائی (جمع) الشَّيٰطِيْنِ : شیطان وَكَانَ : اور ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان لِرَبِّهٖ : اپنے رب کا كَفُوْرًا : ناشکرا
بےمحل خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی بند ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا ہے
بےمحل خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے : 37۔ اوپر بےمحل خرچ کرنے کی برائی کو بیان کیا گیا ہے ، زیر نظر آیت میں اس کی مزید وضاحت فرما دی اور اس سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا اور بتایا کہ فضول خرچی یہ ہے کہ انسان اپنی حیثیت سے اور خصوصا موقع کی ضرورت سے زیادہ خرچ کرے چونکہ اسلام عرب میں آیا ہے اور عربوں کی فیاضی آج کل کے فیاضوں کی طرح فضول خرچی کی حد تک تھی اس لئے تمام مذاہب میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے فضول خرچی سے سختی سے منع کیا ہے اور انسان کو اپنی حد میں رہ کر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ فضول خرچی کی عادت سے قومی سرمایاہ بہت بری طرح برباد ہو کر فنا ہوجاتا ہے اور اس بےموقع خرچ سے جماعت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا نیز فضول خرچی عموما فخر و غرور اور نمائش کے پردہ میں ظاہر ہوتی ہے اور ان بداخلاقیوں کی برائی چھپی نہیں ہے ۔ اہل عرب جب جلسوں میں شراب پیتے ‘ جوا کھیلتے تو جوئے میں جو کچھ جیتتے نشہ کی ترنگ میں آکر اسی وقت لٹا دیتے جانور ملتے تو اسی وقت بےوجہ ذبح کر ڈالتے ، جاہلیت کی شاعری میں اس قسم کے فخریہ اشعار بکثرت ملتے ہیں ، شہرت طلبی کی ایک صورت یہ تھی کہ دو اشخاص فیاضی کے اظہار کے لئے اونٹ پر اونٹ ذبح کرتے جاتے یہاں تک کہ دونوں میں ایک کے تمام اونٹ ختم ہوجاتے تھے تو وہ اپنے حریف کے مقابلہ میں مغلوب سمجھا جاتا تھا اور اس کام کو وہ معاقرہ کہتے تھے نبی کریم ﷺ نے اس کو ریا کی فیاضی قرار دیتے ہوئے روک دیا ۔ (ابوداؤد) اہل عرب کی فیاضی اکثر فخر و غرور اور نام ونمود پر قائم تھی جیسے آج کل ہمارے ملک میں عزیز میں اکثریت کی ہے اور اس نے ان کی فیاضی اکثر فخروغرور اور نام ونمود پر قائم تھی جیسے آج کل ہمارے ملک عزیز میں اکثریت کی ہے اور اس نے ان کی فیاضی میں بےاعتدالی پیدا کردی تھی اس کا دینی نتیجہ یہ تھا کہ خلوص کے نہ ہونے سے وہ اللہ کے نزدیک مقبول نہ تھی اور دنیوی حیثیت سے بعض اوقات وہ تمام مال و دولت کو اڑا کر خود مفلس اور قلاش ہوجاتے تھے پھر اس قسم کی فیاضی کے لئے جائز مال کافی نہیں ہوتا تھا تو وہ لوگ لوٹ مار سے اور ناجائز ذرائع سے مال جمع کرتے تھے اور نمائش کے موقع پر اس مال کو خرچ کرتے تھے اس لئے بےاعتدالی کے دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حقوق مقرر فرمائے اور فضول خرچ کو شیطان کے بھائی کا لقب دیا ۔ آج بھی جو لوگ شادی بیاہ اور خوشی وغمی کی تقریبوں میں اس قسم کی فضول خرچیوں کے مرتکب ہوتے ہیں وہ قرآن کریم کی اصطلاح مین شیطان کے بھائی کہلائیں گے ۔ یہ تعلیم فیاضی کے خلاف نہیں ہے کیونکہ فیاضی بخل واسراف کے درمیان کا نام ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور بتا دیا کہ فضول خرچی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم مفلس اور تہی دست ہو کر کسی کام کے نہیں رہو گے بلکہ تمہیں لوگ قابل ملامت ٹھہرائیں گے جیسا کہ ارشاد فرمایا کہ : ” اور نہ تو اپنا ہاتھ اتنا سیڑ لو کہ گردن میں بندھ جائے اور نہ بالکل ہی پھیلا دو دونوں صورتوں کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر طرف سے ملامت پڑے اور درماندہ ہو کر رہ جاؤ ۔ “ (بنی اسرائیل 17 : 29) چونکہ یہ اعتدال کا وصف خاص اسلام کی اخلاقی تعلیم نے پیدا کیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو مسلمانوں کا امتیازی وصف قرار دیا اور فرمایا کہ : ” عباد الرحمن وہ ہیں جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔ “ (الفرقان 25 : 67) مطلب یہ ہے کہ نہ تو ان کا حال یہ ہے کہ عیاشی اور قمار بازی ‘ شراب نوشی یا عیاشی اور میلوں ٹھیلوں اور شادی بیاہ میں بےدریغ روپیہ خرچ کریں اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنی شان دکھانے کے لئے غذا ‘ مکان ‘ لباس اور تزئین و آرائش پر دولت لٹائیں اور نہ انکی کیفیت یہ ہے کہ ایک زبردست آدمی کی طرح پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھیں نہ خود کھائیں نہ بال بچوں کی ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پوری کریں اور نہ کسی راہ خیر میں خوش دلی کے ساتھ کچھ دیں ۔ عرب میں یہ دونوں قسم کے نمونے کثرت سے پائے جاتے تھے ایک طرف وہ لوگ تھے جو خوب دل کھول کر خرچ کرتے تھے مگر ان کے ہر خرچ کرنے کا مقصود یا تو ذاتی عیش وتنعم تھا یا برادری میں ناک اونچی رکھنا اور اپنی فیاضی و دولت مندی کے ڈنکے بجوانا اور دوسری طرف وہ بخیل تھے جن کی کنجوسی مشہور تھی ، اعتدال کی روش بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی تھی ، اس موقع پر یہ جان لینا چاہئے کہ اسراف کیا چیز ہے ؟ اور بخل کیا ؟ اسلامی نقطہ نظر سے اسراف تین چیزوں کا نام ہے ۔ 1۔ ناجائز کاموں میں دولت خرچ کرنا خواہ وہ ایک آنہ ہی کیوں نہ ہو۔ 2۔ جائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کر جانا خواہ اس لحاظ سے کہ آدمی اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرے یا اس لحاظ سے کہ آدمی کو جو دولت اس کی ضرورت سے زیادہ مل گئی ہے اسے وہ اپنے ہی عیش اور ٹھاٹھ باٹھ میں صرف کرتا چلا جائے ۔ 3۔ نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا مگر رضائے الہی کے لئے نہیں بلکہ ریا اور نمائش کے لئے ۔ اور بخل کا اطلاق دو چیزیوں پر ہوتا ہے ۔ 1۔ یہ کہ آدمی اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پر اپنی مقدرت اور حیثیت کے مطابق خرچ نہ کرے ۔ 2۔ یہ کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس کے ہاتھ سے پیسہ نہ نکلے ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال کی راہ اسلام کی راہ ہے جس کے متعلق نبی اعظم وآخر ﷺ نے فرمایا کہ من فقہ الرجل قصدہ فی معیشتہ ” اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا آدمی کے فقیہ (دانا) ہونے کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ۔ “ (احمد و طبرانی بروایت ابی الدرداء ؓ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطان کے بھائی ہونے سے بچائے اور حیقتت حال سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ شیطان کے بھائی بننا اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنا ہے ، جس سے دین و دنیا دونوں کے لئے خطرہ عظیم ہے ۔
Top