Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 79
اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا
اَمَّا : رہی السَّفِيْنَةُ : کشتی فَكَانَتْ : سو وہ تھی لِمَسٰكِيْنَ : غریب لوگوں کی يَعْمَلُوْنَ : وہ کام کرتے تھے فِي الْبَحْرِ : دریا میں فَاَرَدْتُّ : سو میں نے چاہا اَنْ : کہ اَعِيْبَهَا : میں اسے عیب دار کردوں وَكَانَ : اور تھا وَرَآءَهُمْ : ان کے آگے مَّلِكٌ : ایک بادشاہ يَّاْخُذُ : وہ پکڑ لیتا كُلَّ سَفِيْنَةٍ : ہر کشتی غَصْبًا : زبردستی
کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند مسکینوں کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے، سو میں نے کہا کہ اسے عیب والی کردوں، اور ان لوگوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو چھین لیا کرتا تھا
حضرت خضر (علیہ السلام) کا تینوں باتوں کی حقیقت بتانا حضرت خضر (علیہ السلام) جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جدا کرنے لگے تو فرمایا کہ آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتائے دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے تین کام کیے تھے جن میں سے دو تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک بہت ہی زیادہ قابل اعتراض تھے اور تیسری جو بات تھی وہ کوئی منکر نہ تھا لیکن بستی والوں نے چونکہ طلب کرنے پر بھی کھانے کو کچھ نہیں دیا اس لیے حالت اور ضرورت کے پیش نظر یوں فرما دیا کہ اگر آپ چاہتے تو ان لوگوں سے کچھ مزدوری لے لیتے جس کے ذریعہ ہم کچھ خرید کر کھالیتے۔ (فی صحیح البخاری قال سعید اجراً ناکلہ صفحہ 689 ج 2) کشتی کا تختہ کیوں نکالا حضرت خضر (علیہ السلام) نے تینوں باتوں کی حقیقت بیان فرما دی اور فرمایا کہ کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ یہ غریب لوگوں کی کشتی تھی جو سمندر میں کشتی کو چلاتے اور سواریاں بٹھا کر محنت مزدوری کرکے پیسے حاصل کرتے تھے۔ لیکن ساتھ ہی ایک دشمن بھی لگا ہوا تھا جو ظالم بادشاہ تھا جس کشتی کو اچھی حالت میں دیکھتا تھا اسے چھین لیتا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ یہ لوگ آگے بڑھیں گے تو ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوگا لہٰذا میں نے ایسا عمل کیا جس سے کشتی میں عیب پیدا ہوگیا، وقتی طور پر وہ عیب کی وجہ سے خطرہ سے آگے نکل گئی اس کے بعد انہوں نے اسے درست کردیا اور آگے بڑھ گئے۔
Top