Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 79
اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا
اَمَّا : رہی السَّفِيْنَةُ : کشتی فَكَانَتْ : سو وہ تھی لِمَسٰكِيْنَ : غریب لوگوں کی يَعْمَلُوْنَ : وہ کام کرتے تھے فِي الْبَحْرِ : دریا میں فَاَرَدْتُّ : سو میں نے چاہا اَنْ : کہ اَعِيْبَهَا : میں اسے عیب دار کردوں وَكَانَ : اور تھا وَرَآءَهُمْ : ان کے آگے مَّلِكٌ : ایک بادشاہ يَّاْخُذُ : وہ پکڑ لیتا كُلَّ سَفِيْنَةٍ : ہر کشتی غَصْبًا : زبردستی
وہ جو کشتی تھی سو وہ (چند) غریبوں کی تھی کہ وہ دریا میں کام کرتے تھے،117۔ سو میں نے چاہا کہ اس میں عیب پیدا کردوں اور ان کے آگے کی طرف ایک بادشاہ تھا،118۔ جو ہر (بےعیب) کشتی کو زبردستی پکڑلیتا تھا،119۔
117۔ (اس کے ذریعہ سے محنت مزدوری کرکے کچھ کما لیتے تھے) فقہاء نے یہاں سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ آلات حرفہ وتجارت پر زکوۃ نہیں۔ چناچہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان ملاحوں کو باوجود کشتی کے مالک ہونے کے مسکین ہی کہا۔ فقہاء مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ مسکین کا اطلاق ہر اس شخص پر جائز ہے جو اگرچہ مال رکھتا ہو مگر وہ اس کی ضروریات کے لئے کافی نہ ہو۔ وھو دلیل علی ان المسکین یطلق علی من یملک شیئا اذا لم یکفہ (بیضاوی) وفیہ دلیل علی ان المسکین وان کان یملک شیئا فلایزول عنہ اسم المسکنۃ اذا لم یعم مایملک بکفایتہ (معالم) 118۔ (آیت) ” ورآء “۔ یہاں بہ معنی امام (سامنے) کے ہے۔ اور (آیت) ” ورآء “۔ کے امام کے مترادف ہونے میں کسی لغوی کو اختلاف بھی نہیں۔ قالہ قتادۃ امامھم (ابن جریر) وھو قول قتادۃ وابی عبید وابن السکیت والزجاج (روح) ولا خلاف عند اھل اللغۃ فی مجیء وراء بمعنی امام (روح) بلکہ حضرت ابن عباس ؓ کی تو قرأت ہی بجائے (آیت) ” ورآء ھم “۔ کے امامھم کی ہے۔ وکان ابن عباس ؓ یقرأ وکان امامھم ذلک (فتح القدیر) مراد یہ ہے کہ وہ کشتی جدہر جارہی تھی، اسی طرف آگے بڑھ کر ایک ایسے ظالم وغاصب بادشاہ کی عملداری شروع ہونے والی تھی۔ 119۔ (سو اگر میں اس کشتی میں سوراخ نہ کردیتا تو وہ بادشاہ اسے بھی پکڑ لیتا اور ان غریبوں کے ہاتھ سے ذریعہ سے معاش جاتا رہتا۔ اب یہ ہے کہ اس کی مرمت وہ لوگ تھوڑے میں کرالیں گے اور اس نقصان عظیم سے بچ جائیں گے)
Top