Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 79
اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا
اَمَّا : رہی السَّفِيْنَةُ : کشتی فَكَانَتْ : سو وہ تھی لِمَسٰكِيْنَ : غریب لوگوں کی يَعْمَلُوْنَ : وہ کام کرتے تھے فِي الْبَحْرِ : دریا میں فَاَرَدْتُّ : سو میں نے چاہا اَنْ : کہ اَعِيْبَهَا : میں اسے عیب دار کردوں وَكَانَ : اور تھا وَرَآءَهُمْ : ان کے آگے مَّلِكٌ : ایک بادشاہ يَّاْخُذُ : وہ پکڑ لیتا كُلَّ سَفِيْنَةٍ : ہر کشتی غَصْبًا : زبردستی
(کہ وہ جو) کشتی (تھی) غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت (کرکے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ) کرتے تھے۔ اور ان کے سامنے (کی طرف) ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں (تاکہ وہ اسے غصب نہ کرسکے)
اما السفینۃ فکانت لمسکین یعملون فی البحر فاردت ان اعیبہا وکان وراۂم ملک یاخذ کل سفینۃ غصبا۔ کشتی تو تھی چند غریبوں کی جو دریا میں کمائی کرتے تھے (لوگوں کو دریائی سفر کراتے اور کرایہ لیتے تھے) میں نے کشتی کو (توڑ کر) عیب دار کرنا چاہا (اور عیب دار کردیا) کیونکہ ان سے پرے راستہ میں) ایک بادشاہ تھا جو ہر (عمدہ سالم کشتی) کو چھین لیتا ہے۔ کعب نے کہا یہ کشتی دس غریبوں کی تھی جو بھائی بھائی تھے ‘ پانچ تو اپاہج تھے اور پانچ کام کرتے تھے۔ آیت بتارہی ہے کہ مسکین کا اطلاق اس شخص پر بھی ہوتا ہے جس کے پاس مال تو ہو مگر ناکافی ہو۔ بقدر ضرورت نہ ہو یا اصلی ضرورتوں سے زائد نہ ہو۔ ورائ سے مراد ہے سامنے جیسے مِنْ وَرَاءِہِمْ جَہَنَّمَ میں وراء سے مراد ہے آگے بعض کے نزدیک وراء سے مراد پیچھے ہے واپسی میں اس ظالم بادشاہ کے حدود سے ان مسکینوں کو گزرنا تھا۔ اوّل تفسیر صحیح ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی قراءت میں وراۂم کی جگہ امامہم (ان کے آگے) آیا بھی ہے۔ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ سے مراد ہے ہر عمدہ سالم اچھی کشتی۔ خضر نے کشتی کا تختہ پھاڑ کر عیب دار کردیا تاکہ ڈاکو بادشآہ اس کو نہ چھین لے اس شخص کا نام جلیدی بن کر کر تھا ‘ محمد بن اسحاق نے سولہ بن جلید ازدی لکھا ہے اور شعیب جبائی نے ہددبن بدد کہا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے روایت میں آیا ہے کہ حضرت خضر نے کشتی توڑنے کی وجہ بطور معذرت کشتی والوں کے سامنے بیان کی اور ظالم غاصب بادشاہ کے واقعہ کی اطلاع دی خضر کے بتانے سے پہلے ان کو کچھ معلوم نہ تھا۔ جب اس بادشاہ کی حدود سے کشتی والے آگے بڑھ گئے تو انہوں نے کشتی کو درست کرلیا ‘ کسی نے کہا روغن قیرکاپالش کرلیا (یا رال سے جوڑ دیا) کسی نے کہا سوراخ میں شیشی اڑا دی ‘ قوم کے سامنے حضرت خضر کی معذرت کی روایت عبارت قرآن کے خلاف ہے ‘ قرآن کی صراحت ہے کہ اپنے کئے ہوئے کاموں کی وجوہ حضرت خضر نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے اس وقت بیان کیں جب کشتی سے اتر کر لڑکے کو قتل کر کے دیوار کو سیدھا کرچکے تھے اور دونوں کے الگ ہونے کا وقت آگیا تھا اگر حضرت خضر کشتی والوں کو کشتی کے اندر ہی اپنے فعل کی وجہ بتا چکے ہوتے تو حضرت موسیٰ بھی اس سے ضرور واقف ہوجاتے ‘ پھر دوبارہ موسیٰ سے بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
Top