Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 79
اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا
اَمَّا : رہی السَّفِيْنَةُ : کشتی فَكَانَتْ : سو وہ تھی لِمَسٰكِيْنَ : غریب لوگوں کی يَعْمَلُوْنَ : وہ کام کرتے تھے فِي الْبَحْرِ : دریا میں فَاَرَدْتُّ : سو میں نے چاہا اَنْ : کہ اَعِيْبَهَا : میں اسے عیب دار کردوں وَكَانَ : اور تھا وَرَآءَهُمْ : ان کے آگے مَّلِكٌ : ایک بادشاہ يَّاْخُذُ : وہ پکڑ لیتا كُلَّ سَفِيْنَةٍ : ہر کشتی غَصْبًا : زبردستی
وہ جو کشتی تھی سو چند محتاجوں کی جو محنت کرتے تھے دریا میں سو میں نے چاہا کہ اس میں عیب ڈال دوں اور ان کے پرے تھا ایک بادشاہ جو لے لیتا تھا ہر کشتی کو چھین کر
خلاصہ تفسیر
اور وہ جو کشتی تھی سو چند غریب آدمیوں کی تھی (جو اس کے ذریعہ) دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے (اسی پر ان کی گذر اوقات تھی) سو میں نے چاہا کہ اس میں عیب ڈال دوں اور (وجہ اس کی یہ تھی کہ) ان لوگوں سے آگے سے آگے کی طرف ایک (ظالم) بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا (اگر میں کشتی میں عیب ڈال کر بظاہر بیکار نہ کردیتا تو یہ کشتی بھی چھین لی جاتی اور ان غریبوں کی مزدوری کا سہارا بھی ختم ہوجاتا اس لئے توڑنے میں یہ مصلحت تھی) اور رہا وہ لڑکا سو اس کے ماں باپ ایمان دار تھے (اور اگر وہ بڑا ہوتا تو کافر ظالم ہوتا اور ماں کو اس سے محبت بہت تھی) سو ہم کو اندیشہ ہوا کہ یہ ان دونوں پر سرکشی اور کفر کا اثر نہ ڈال دے (یعنی بیٹے کی محبت کے سبب وہ بھی بےدینی میں اس کا ساتھ نہ دینے لگیں) پس ہم کو یہ منظور ہوا (اس کا تو قصہ تمام کردیا جائے پھر) اس کے بدلے ان کا پروردگار ان کو ایسی اولاد دے (خواہ لڑکا ہو یا لڑکی) جو کہ پاکیزگی (یعنی دین) میں اس سے بہتر ہو اور (ماں باپ کے ساتھ) محبت کرنے میں اس سے بڑھ کر ہو اور رہی دیوار سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جو اس شہر میں (رہتے) ہیں اور اس دیوار کے نیچے ان کا کچھ مال مدفون تھا (جو ان کے باپ سے میراث میں پہنچا ہے) اور ان کا باپ (جو مرگیا ہے وہ) ایک نیک آدمی تھا (اس کے نیک ہونے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کے مال کو محفوظ کرنا چاہا اگر دیوار ابھی گر جاتی تو لوگ یہ مال لوٹ لے جاتے اور غالباً جو شخص ان یتیم لڑکوں کا سرپرست تھا اس کو اس خزانے کا علم ہوگا وہ یہاں موجود نہ ہوگا جو انتظام کرلیتا) اس لئے آپ کے رب نے اپنی مہربانی سے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی (کی عمر) کو پہنچ جائیں اور اپنا دفینہ نکال لیں اور (یہ سارے کام میں نے اللہ کے حکم سے کئے ہیں ان میں سے) کوئی کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیا یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا (جس کو میں حسب وعدہ بتلا چکا ہوں چناچہ حضرت موسیٰ ؑ خضر ؑ سے رخصت ہوگئے)

معارف و مسائل
(آیت) اَمَّا السَّفِيْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ یہ کشتی جن مسکینوں کی تھی ان کے متعلق کعب احبار سے منقول ہے کہ وہ دس بھائی تھے جن میں پانچ اپاہج معذور تھے پانچ محنت مزدوری کرکے سب کے لئے معاش کا انتظام کرتے تھے اور مزدوری ان کی یہ تھی کہ دریا میں ایک کشتی چلاتے اور اس کا کرایہ حاصل کرتے تھے۔
مسکین کی تعریف
بعض لوگوں نے یہ کی ہے کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو مگر اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسکین کی صحیح تعریف یہ ہے کہ جس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ اس کی حاجات اصلیہ ضروریہ سے زائد بقدر نصاب ہوجائے اس سے کم مال ہو تو وہ بھی مسکین کی تعریف میں داخل ہے کیونکہ جن لوگوں کو اس آیت میں مساکین کہا گیا ہے ان کے پاس کم از کم ایک کشتی تو تھی جس کی قیمت مقدار نصاب سے کم نہیں ہوتی مگر چونکہ وہ حاجات اصلیہ ضروریہ میں مشغول تھی اس لئے ان کو مساکین ہی کہا گیا (مظہری)
(آیت) مَّلِكٌ يَّاْخُذُ كُلَّ سَفِيْنَةٍ غَصْبًا بغوی نے بروایت ابن عباس ؓ نقل کیا ہے کہ یہ کشتی جس طرف جارہی تھی وہاں ایک ظالم بادشاہ تھا جو ادھر سے گذرنے والوں کی کشتیاں زبردستی چھین لیتا تھا حضرت خضر ؑ نے اس مصلحت سے کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا کہ وہ ظالم بادشاہ اس کشتی کو شکستہ دیکھ کر چھوڑ دے اور یہ مساکین اس مصیبت سے بچ جائیں دانائے روم نے خوب فرمایا۔
گر خضر در بحر کشتی را شکست صد درستی در شکست خضر ہست
Top