Anwar-ul-Bayan - Al-Muminoon : 78
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : وہی جس نے اَنْشَاَ لَكُمُ : بنائے تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) قَلِيْلًا : بہت ہی کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تم کم شکر ادا کرتے ہو
اللہ کی تخلیق کے مظاہرے، منکرین بعث کی تردید گزشتہ آیات میں منکرین کے کفر اور عناد کا ذکر تھا ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر اور امکان بعث پر دلائل قائم فرمائے ہیں اور مشرکین سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور صفات جلیلہ کا اقرار کرایا ہے اور انہیں بار بار متوجہ فرمایا ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے اللہ کی توحید کے منکر ہو رہے ہیں۔ اول تو یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں سننے کی قوت دی ہے آنکھیں عطا فرمائی ہیں تمہارے اندر دل پیدا فرمائے ہیں دیکھو یہ کتنی بڑی بڑی نعمتیں ہیں ان نعمتوں کی وجہ سے تم پر شکر واجب ہوتا ہے لیکن کم شکر ادا کرتے ہو یوں ہی چلتی ہوئی بات کی طرح کہہ دیتے ہو کہ اللہ کا شکر ہے لیکن اللہ کے نبی اور اس کی کتاب پر ایمان نہیں لاتے، اس کی عبادت میں نہیں لگتے اس کے ساتھ شرک کرتے ہو، پھر فرمایا کہ ان سے فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ہے یعنی زمین میں رہتے سہتے ہو اس میں تمہاری نسلیں چل رہی ہیں اس سے فائدہ اٹھاتے ہو جس نے تمہیں زمین پر پھیلا دیا وہی موت دیتا ہے اور رات دن کا مختلف ہونا یعنی ایک دوسرے کے بعد آنا جانا یہ بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے تم اس بات کو سمجھو اگر سمجھتے ہو تو اس کی توحید اور عبادات سے کیوں دور کھاگتے ہو۔ اس کے بعد فرمایا کہ مردہ ہو کر دو بارہ زندہ ہونے کے بارے منکرین بعث وہی بات کہہ رہے ہیں جو ان سے پہلے لوگوں نے کہی ان کا کہنا ہے کہ مرجانے کے بعد جب مٹی ہوجائیں گے اور گوشت پوست ختم ہو کر ہڈیاں ہی ہڈیاں رہ جائیں گی تو کیا ہم پھر زندہ ہو کر اٹھائے جائیں گے یہ بات کہہ کر ان کا مقصد دو بارہ زندہ ہونے سے انکار کرنا ہے انہوں نے اپنی اسی بات پر بس نہیں کیا بلکہ یوں بھی کہا کہ اس طرح کی باتیں پہلے بھی کہی گئی ہیں ہمارے باپ دادوں سے بھی اس طرح کا وعدہ کیا گیا ہے سینکڑوں سال گزر گئے آج تک تو قیامت آئی نہیں آنی ہوتی تو اب تک آجاتی یہ پرانے لوگوں کی باتیں نقل درنقل چلی آرہی ہیں، ہماری سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے موافق جو قیامت کا وقت مقرر ہے اس وقت قیامت آجائے گی اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے پورا ہو کر رہے گا لوگوں کے کہنے سے وقت سے پہلے قیامت نہیں آئے گی دیر میں آنا دلیل اس بات کی نہیں کہ آنی ہی نہیں ہے منکرین کا یہ کہنا ہے چونکہ اب تک نہیں آئی اس لیے آنی ہی نہیں محض جہالت کی بات ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ شانہٗ نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ان سے پوچھ لیجیے کہ زمین اور جو کچھ زمین میں ہے وہ کس کی ملکیت ہے اس کے جواب میں وہ یوں ہی کہیں گے کہ اللہ ہی کے لیے ہے، ان کی طرف سے یہ جواب مل جانے پر سوال فرمایا پھر تم کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے پھر فرمایا آپ ان سے پوچھ لیجیے کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟ وہ اس کا جواب بھی یہی دیں گے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ان کے اس جواب پر ان سے سوال فرمائیے کہ تم اس سب کا اقرار کرتے ہو پھر اللہ سے کیوں نہیں ڈرتے، جاننے اور ماننے کے باو جود اس کی قدرت کا اور وقوع قیامت کا کیوں انکار کرتے ہو۔ اس کے بعد فرمایا کہ آپ ان سے دریافت فرمائیے کہ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور وہی پناہ دیتا ہے۔ (جس کو چاہتا ہے) اور اس کے مقابلہ میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا ؟ اس کے جواب میں بھی وہ یہی کہیں گے کہ یہ سب صفات اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں، ان کے اس جواب پر سوال فرمائیے کہ پھر تم کیوں منکر ہو رہے ہو یعنی تمہارا ایسا ڈھنگ ہے جیسے تم پر جادو کردیا گیا ہو حق اور حقیقت واضح ہوجانے کے باو جود کیوں مخبوط الحواس بنے ہوئے ہو۔ حق اور حقیقت واضح ہوتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت عظیمہ کا اقرار کرتے ہوئے پھر بھی حق کے منکر ہیں اس لیے آخر میں فرمایا (بَلْ اَتَیْنَاھُمْ بالْحَقِّ وَاِِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ ) (بلکہ بات یہ ہے کہ ہم نے انہیں حق پہنچا دیا اور یقیناً وہ جھوٹے ہیں) ۔
Top