Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 10
وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب نَادٰي : پکارا (فرمایا) رَبُّكَ : تمہارا رب مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنِ ائْتِ : کہ تو جا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ
اور جب آپ کے رب نے موسیٰ کو پکارا کہ ظالم قوم
حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کا فرعون کے پاس پہنچنا اور گفتگو کرنا یہ پورے ایک رکوع کا ترجمہ ہے جو بہت سی آیات پر مشتمل ہے ان میں حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کے فرعون کے پاس جانے اور گفتگو کرنے کا تذکرہ ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ایک گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ فرعون بنی اسرائیل کا دشمن تھا۔ ان کے لڑکوں کو قتل کردیتا تھا اور ان کی جو لڑکیاں پیدا ہوتی تھیں انہیں زندہ چھوڑ دیتا تھا جب موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ کے دل میں ڈالا کہ اس بچہ کو ایک تابوت میں رکھ کر سمندر میں ڈال دو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اہل فرعون نے اس تابوت کو پکڑ لیا دیکھا کہ اس میں ایک بچہ ہے بچہ کو اٹھا لیا اور فرعون کی بیوی نے فرعون سے کہا اسے قتل نہ کرو ممکن ہے کہ یہ ہمیں کچھ فائدہ پہنچا دے یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں جب فرعون اس پر راضی ہوگیا تو دودھ پلانے والی عورت کی تلاش ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) کسی عورت کا دودھ نہیں لیتے تھے جب ان کی والدہ نے تابوت میں رکھ کر انہیں سمندر میں ڈالا تو ان کی بہن کو پیچھے لگا دیا تھا کہ دیکھ یہ تابوت کدھر جاتا ہے جب تابوت فرعون کے محل میں پہنچ گیا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کسی عورت کا دودھ نہ پیا تو ان کی بہن بول اٹھی کہ میں تمہیں ایسا خاندان بتا دیتی ہوں جو ان کی کفایت کرلے گا ان لوگوں نے منظوری دے دی اور یہ جلدی سے اپنی والدہ کو لے آئیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی والدہ کا دودھ قبول کرلیا اور اپنی والدہ کے پاس رہتے رہے لیکن فرعون کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے رہتے تھے جب بڑے ہوگئے تو فرعون کے محل میں رہنا سہنا شروع ہوگیا اور وہاں کئی سال گزارے پھر جب اور بڑے ہوگئے تو ایک قبطی یعنی فرعون کی قوم کے ایک شخص کا ان کے ہاتھ سے قتل ہوگیا لہٰذا ایک شخص کے مشورہ دینے پر مصر چھوڑ کر مدین چلے گئے وہاں ایک بزرگ کی لڑکی سے نکاح ہوگیا دس سال وہاں گزارے اس عرصہ میں بکریاں چراتے رہے پھر جب اپنے وطن یعنی مصر کو واپس ہونے لگے تو اپنی بیوی کو ساتھ لیا جنگل بیابان میں کوہ طور کے پاس پہنچے (جو مصر اور مدین کے درمیان ہے) اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ راستہ بھول گئے اور سردی بھی لگنے لگی کوہ طور پر آگ نظر آئی اپنی بیوی سے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو میں جاتا ہوں تمہارے تاپنے کے لیے کوئی چنگاری لے آؤں گا یا کوئی راہ بتانے والا ہی مل جائے گا وہ نار نہ تھی بلکہ نور الہٰی تھا وہاں پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت سے نواز دیئے گئے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہوا کہ فرعون کے پاس جاؤ اسے توحید کی دعوت دو ، وہ اور اس کی قوم ظالم لوگ ہیں انہیں کفر و شرک اور اس کی سزا سے بچنا چاہئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلا دیں اور ساتھ ہی یہ بات ہے کہ میرا دل تنگ ہونے لگتا ہے اور زبان میں بھی روانی نہیں ہے اس لیے میرے بھائی ہارون کو بھی نبوت سے سر فراز فرمائیے اور میرے کام میں شریک فرمائیے ایک بات اور بھی ہے وہ یہ کہ میرے ذمہ ان کا ایک جرم ہے میں نے ان کا ایک آدمی قتل کردیا تھا اب ڈر ہے کہ وہ مجھے اس کے بدلہ قتل نہ کردیں اللہ تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہوا تمہاری درخواست قبول کرلی گئی ہارون کو بھی نبوت سے سر فراز کردیا اور ان کو بھی تمہارے کام میں شریک کردیا اور تم اس بات کا خیال نہ کرو کہ تمہیں قتل کر دے گا ایسا ہرگز نہ ہوگا تم دونوں جاؤ اسے حق کی دعوت دو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تمہارا حال دیکھتے ہیں اور جو کچھ فرعون سے بات چیت ہوگی وہ سب ہم سنتے رہیں گے فرعون کے پاس پہنچو اور اس سے کہو کہ ہم رب العالمین کے پیغمبر ہیں تو رب العالمین پر ایمان لا اور ہماری رسالت کو بھی تسلیم کر اور رب العالمین کے سوا کسی کو اپنا رب اور معبود مت بنا اور ہمارا یہ بھی کہنا ہے کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔ موسیٰ (علیہ السلام) مصر پہنچے اور اپنے بھائی ہارون کو ساتھ لیا اور دونوں فرعون کے پاس پہنچے اسے توحید کی دعوت دی اور بنی اسرائیل کو ساتھ بھیجنے کے لیے کہا فرعون نے کہا کہ اے موسیٰ جب تو چھوٹا سا بچہ تھا ہم نے تجھے پالا اپنی عمر کے کئی سال تم نے ہمارے ساتھ گزارے اور تو نے وہ حرکت کی جسے تو جانتا ہے (یعنی ایک قبطی کو قتل کردیا) ہم نے جو تیری پرورش کی تو نے اس کا بدلہ دیا اور شکر گزاری کی بجائے نا شکروں میں شامل ہوگیا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ مجھ سے ایک شخص قتل ہوگیا تھا مجھ سے غلطی ہوگئی تھی (میں نے عمداً قتل نہیں کیا تھا اس کی ظالمانہ روش کو دیکھ کرتا دیباً مکا مارا تھا وہ ایک مکا لگنے سے مرگیا میرا مقصود نہ مارنا تھا نہ کوئی ایک مکا میں مرتا ہے) تم لوگ میرے قتل کے مشورے کر ہی رہے تھے لہٰذا میں قتل کے ڈر سے بھاگ گیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے دانشمندی عطاء فرما دی اور مجھے اپنے پیغمبروں میں شامل فرما دیا۔ اب جبکہ مجھے اللہ تعالیٰ کا فرمان لے کر تیرے پاس آنا ضروری ہوا، رہی یہ بات کہ تو نے میری پرورش کی تھی اور تو مجھ پر اس کا احسان جتا رہا ہے تو تجھے سمجھنا چاہئے کہ میری پرورش تجھے کیوں کرنی پڑی نہ تو بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرتانہ میں سمندر میں بہایا جاتا نہ تیرے گھر میں پہنچتا نہ تجھے پرورش کرنی پڑتی، تو نے جو بنی اسرائیل کو غلام بنارکھا تھا اس کی وجہ سے تیرے گھر میں میری پرورش کرائی گئی پھر یہ بھی تو دیکھ کہ میں نے ایک شخص کو قتل کیا میرا ایک شخص کا قتل کردینا تیرے نزدیک قابل ذکر ہے اور تو نے جو بنی اسرائیل کے لڑکے کثیر تعداد میں قتل کیے اس کا تجھے کوئی دھیان نہیں اگر تو نے ایک لڑکے کی پرورش کر ہی دی تو کیا اس سے اس ظلم کو دبایا جاسکتا ہے جو تو نے بنی اسرائیل کے ساتھ روا رکھا ہے۔ فرعون چونکہ اپنے ہی کو سب سے بڑا رب کہتا تھا اور اپنی قوم کے لوگوں سے منواتا تھا اور یہ لوگ خالق حقیقی جل مجدہ کے منکر تھے اس لیے موسیٰ و ہارون ( علیہ السلام) کا فرمانا کہ (اِِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) اچھا نہ لگا اس نے سوال جواب کے ذریعہ ان کی بات کو رد کرنے اور اپنے درباریوں کو مطمئن رکھنے کے لیے سوالات شروع کردیئے اس میں سے بعض سوال اور ان کے جواب سورة طہ کے دوسرے رکوع میں مذکور ہیں اور کچھ یہاں شعراء میں ذکر فرمائے ہیں فرعون کہنے لگا کہ یہ جو تم کہہ رہے ہو کہ ہم رب العالمین کے رسول ہیں یہ تو بتاؤ رب العالمین کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بےدھڑک جواب دیا کہ رب العالمین جل مجدہ وہ ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا اور جو ان کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے اس میں یہ بتادیا کہ اے فرعون تو اور تیرے آس پاس کے بیٹھنے والے اور تیری مملکت کے سارے افراد تیری سارے مملکت اور ساری دنیا اور اس کے رہنے بسنے والے رب العالمین ان سب کا رب ہے فرعون اور اس کے درباریوں نے یہ بات کبھی نہ سنی تھی وہ اچنبھے کے طور پر اپنے درباریوں سے کہنے لگا (اَلاَ تَسْتَمِعُوْنَ ) (کیا آپ لوگ سن رہے ہیں کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا (رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَاءِکُمُ الْاَوَّلِیْنَ ) (رب العالمین تمہارا بھی رب اور تم سے پہلے جتنے باپ دادے گزرے ہیں ان سب کا بھی رب ہے) ایسی بےباکانہ بات سن کر فرعون سے کچھ بن نہ پڑا اور اپنے درباریوں سے بطور تمسخر یوں کہنے لگا کہ (اِِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ) کہ یہ شخص جو اپنے خیال میں تمہارا رسول بن کر آیا ہے مجھے تو اس کے دیوانہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ (اللہ کے رسولوں کو دیوانہ اور جادوگر تو کہا جاتا ہی رہا ہے فرعون نے بھی یہ حربہ استعمال کرلیا) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی بات مزید آگے بڑھائی اور فرمایا کہ میں جس ذات پاک کو رب العالمین بتارہا ہوں وہ مشرق کا بھی رب ہے اور مغرب کا بھی اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے ان سب کا رب ہے اگر تم عقل رکھتے ہو تو اسے مان لو اب تو فرعون ظالمانہ کٹ حجتی پر آگیا جو ظالموں کا شعار ہے اور کہنے لگا کہ اے موسیٰ میرے سوا اگر تو نے کسی کو معبود بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں شامل کر دوں گا تو جیل کاٹے گا اور وہاں کے مصائب میں مبتلا رہے گا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں دلیل سے بات کرتا ہوں میرے پاس اللہ کی طرف سے اس بات کی نشانی ہے کہ میں اس کا پیغمبر ہوں اگر میں نشانی پیش کر دوں تو پھر بھی جیل جانے کا مستحق ہوں ؟ حضرت موسیٰ کے فرمانے پر فرعون نے کہا اگر تم سچے ہو تو لاؤنشانی پیش کرو، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو جو نشانیاں دی تھیں ان میں ایک تو لاٹھی کو زمین پر ڈلوا کر سانپ بنا دینا تھا پھر ان کے پکڑنے سے وہ دو بارہ لاٹھی بن گئی تھی جیسا کہ سورة طہ میں بیان ہوچکا ہے دوسرے ان سے فرمایا تھا کہ تم اپنے گریبان میں اپناہاتھ داخل کرو انہوں نے ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ سفید ہو کر نکل آیا یہ سفیدی اس گورے پن سے کئی گنا زیادہ تھی جو عام طور سے گورے آدمیوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے یہ دونوں نشانیاں دے کر فرعون کے پاس بھیجا تھا اور فرمایا تھا کہ (فَذَالِکَ بُرْھَانَانِ مِنْ رَّبِکَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَ مَلاَءِہٖ ) (سو یہ تمہارے رب کی طرف سے دو دلیلیں ہیں فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف لے کر جاؤ) فرعون نے نشانی طلب کی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی ڈال دی وہ فوراً اژدھا بن گئی اور گریبان میں ہاتھ ڈال کر نکالا تو خوب زیادہ سفید ہو کر نکلا دیکھنے والے اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 233 میں لکھا ہے کہ اس وقت حضرت موسیٰ کا ہاتھ چاند کے ٹکڑے کی طرح چمک رہا تھا اس کے بعد فرعون نے مقابلہ کے لیے جادو گروں کو بلایا جیسا جیسا کہ آئندہ رکوع میں مذکور ہے۔
Top