Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 10
وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب نَادٰي : پکارا (فرمایا) رَبُّكَ : تمہارا رب مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنِ ائْتِ : کہ تو جا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ
اور جب پکارا تیرے رب نے موسیٰ کو کہ جا اس قوم گنہگار کے پاس
خلاصہ تفسیر
اور (ان لوگوں سے اس وقت کا قصہ ذکر کیجئے) جب آپ کے رب نے موسیٰ ؑ کو پکارا (اور حکم دیا) کہ تم ان ظالم لوگوں کے یعنی قوم فرعون کے پاس جاؤ (اور اے موسیٰ دیکھو) کیا یہ لوگ (ہمارے غضب سے) نہیں ڈرتے (یعنی ان کی حالت عجیب اور شنیع ہے اس لئے ان کی طرف تم کو بھیجا جاتا ہے) انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار، (میں اس خدمت کے لئے حاضر ہوں لیکن اس خدمت کی تکمیل کے لئے ایک مددگار چاہتا ہوں کیونکہ) مجھ کو یہ اندیشہ ہے کہ وہ مجھ کو (اپنی پوری بات کہنے سے پہلے ہی) جھٹلانے لگیں اور (طبعی طور پر ایسے وقت میں) میرا دل تنگ ہونے لگتا ہے اور میری زبان (اچھی طرح) نہیں چلتی اس لئے ہارون کے پاس (بھی وحی) بھیج دیجئے (اور ان کو نبوت عطا فرما دیجئے کہ اگر میری تکذیب کی جاوے تو وہ تصدیق کرنے لگیں تاکہ دل شگفتہ اور زبان رواں رہے اور اگر میری زبان کسی وقت بند ہوجاوے تو وہ تقریر کرنے لگیں اور ہرچند کہ یہ غرض ویسے بھی ہارون ؑ کو بلانبوت عطا ہوئے ساتھ رکھنے سے حاصل ہو سکتی تھی مگر عطائے نبوت میں اور زیادہ باکمل وجوہ پوری ہوئی) اور (ایک امر یہ قابل عرض ہے کہ) میرے ذمہ ان لوگوں کا ایک جرم بھی ہے (کہ میرے ہاتھ سے ایک قبطی قتل ہوگیا تھا جس کا قصہ سورة قصص میں آوے گا) سو (اس لئے) مجھ کو (ایک) یہ اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھ کو (قبل تبلیغ رسالت) قتل کر ڈالیں (تب بھی تبلیغ نہ کرسکوں گا تو اس کی بھی کوئی تدبیر فرما دیجئے) ارشاد ہوا کہ کیا مجال ہے (جو ایسا کرسکیں اور ہم نے ہارون کو بھی پیغمبری دی، اب تبلیغ کے دونوں مانع مرتفع ہوگئے) سو (اب) تم دونوں میرے احکام لے کر جاؤ (کہ ہارون بھی نبی ہوگئے اور) ہم (نصرت و امداد سے) تمہارے ساتھ ہیں (ور جو گفتگو تمہاری اور ان لوگوں کی ہوگی اس کو) سنتے ہیں سو تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور (اس) سے کہو کہ ہم رب العالمین کے فرستادہ ہیں (اور دعوت الی التوحید کے ساتھ یہ حکم بھی لائے ہیں) کہ تو بنی اسرائیل کو (اپنے بیگار اور ظلم سے رہائی دے کر ان کے اصلی وطن ملک شام کی طرف) ہمارے ساتھ جانے دے (خلاصہ اس دعوت کا حقوق اللہ اور حقوق العباد میں ظلم وتعدی کا ترک کرنا ہے، چناچہ یہ دونوں حضرات گئے اور فرعون سے سب مضامین کہہ دیئے) فرعون (یہ سب باتیں سن کر اول موسیٰ ؑ کی طرف ان کو پہچان کر متوجہ ہوا اور) کہنے لگا کہ (اہا تم ہو) کیا ہم نے تم کو بچپن میں پرورش نہیں کیا اور تم اپنی (اس) عمر میں برسوں ہم میں رہا سہا کئے اور تم نے اپنی وہ حرکت بھی کی تھی جو کی تھی (یعنی قبطی کو قتل کیا تھا) اور تم بڑے ناسپاس ہو (کہ میرا ہی کھایا، میرا ہی آدمی قتل کیا اور پھر مجھ کو اپنا تابع بنانے آئے ہو، چاہئے تو یہ تھا کہ تم میرے سامنے دب کر رہتے) موسیٰ ؑ نے جواب دیا کہ (واقعی) اس وقت وہ حرکت میں کر بیٹھا تھا اور مجھ سے غلطی ہوگئی تھی (یعنی عمداً میں نے قتل نہیں کیا، اس کی ظالمانہ روش سے اس کو روکنا مقصود تھا اتفاق سے وہ مر گیا) پھر جب مجھ کو ڈر لگا تو میں تمہارے ہاں سے مفرور ہوگیا، پھر مجھ کو میرے رب نے دانشمندی عطا فرمائی اور مجھ کو پیغمبروں میں شامل کردیا (اور وہ دانشمندی اسی نبوت کے لوازم سے ہے۔ خلاصہ جواب یہ ہے کہ میں پیغمبری کی حیثیت سے آیا ہوں جس میں دبنے کی کوئی وجہ نہیں اور پیغمبری اس واقعہ قتل خطاء کے منافی نہیں کیونکہ یہ قتل خطاء صادر ہوا تھا جو نبوت کی اہلیت و صلاحیت کے منافی نہیں۔ یہ تو جواب ہے اعتراض قتل کا) اور (رہا احسان جتلانا پرورش کا سو) وہ یہ نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان رکھتا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو سخت ذلت (اور ظلم) میں ڈال رکھا تھا (کہ ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا جس کے خوف سے میں صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈالا گیا اور تیرے ہاتھ لگ گیا اور تیری پرورش میں رہا تو اس پرورش کی اصلی وجہ تو تیرا ظلم ہی ہے تو ایسی پرورش کا کیا احسان جتلاتا ہے بلکہ اس سے تو تجھے اپنی ناشائستہ حرکات کو یاد کر کے شرمانا چاہئے) فرعون (اس بات پر لاجواب ہوا اور گفتگو کا پہلو بدل کر اس) نے کہا کہ (جس کو تم) رب العالمین (کہتے ہو لقلولہ تعالیٰ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ اس) کی ماہیئت (اور حقیقت) کیا ہے موسیٰ ؑ نے جواب دیا کہ وہ پروردگار ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ (مخلوقات) ان کے درمیان میں ہے اس (سب) کا اگر تم کو یقین (حاصل) کرنا ہو (تو یہ پتہ بہت ہے، مطلب یہ کہ اس کی حقیقت کا ادراک انسان نہیں کرسکتا اس لئے جب ان کا سوال ہوگا صفات سے ہی جواب ملے گا) فرعون نے اپنے اردگرد (بیٹھنے) والوں سے کہا کہ تم لوگ (کچھ) سنتے ہو (کہ سوال کچھ جواب کچھ) موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ وہ پروردگار ہے تمہارا اور تمہارے پہلے بزرگوں کا (اس جواب میں مکرر تنبیہ ہے اس مطلب مذکور پر مگر) فرعون (نہ سمجھا اور) کہنے لگا کہ یہ تمہارا رسول جو (بزعم خود) تمہاری طرف رسول ہو کر آیا ہے مجنون (معلوم ہوتا) ہے۔ موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ وہ پروردگار ہے مشرق اور مغرب کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے اس کا بھی اگر تم کو عقل ہو (تو اسی سے مان لو) فرعون (آخر مجبور ہو کر) کہنے لگا کہ اگر تم میرے سوا کوئی اور معبود تجویز کرو گے تو تم کو جیل خانہ بھیج دوں گا۔ موسیٰ ؑ نے فرمایا کیا اگر کوئی میں صریح دلیل پیش کروں تب بھی (نہ مانے گا) فرعون نے کہا اچھا تو وہ دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو، تو موسیٰ ؑ نے اپنی لاٹھی ڈال دی تو دفعۃً ایک نمایاں اژدھا بن گیا (اور دوسرا معجزہ دکھلانے کے لئے) اپنا ہاتھ (گریبان میں دے کر) باہر نکالا تو وہ دفعۃً سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہوگیا (کہ اس کو بھی سب نے نظر حسی سے دیکھا۔)
Top