Baseerat-e-Quran - Ash-Shu'araa : 10
وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب نَادٰي : پکارا (فرمایا) رَبُّكَ : تمہارا رب مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنِ ائْتِ : کہ تو جا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ
(اے نبی ﷺ یاد کیجئے جب آپ کے رب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پکارا کہ تم ظالم قوم یعنی قوم فرعون کے پاس جائو۔
لغات القرآن : آیت نمبر 10 تا 22 : نادی (آوازدی) ٍیضیق (تنگ ہوتا ہے۔ گھٹتا ہے) صدری (میرا سینہ) ‘ لسانی (میری زبان) کلا (ہرگز نہیں) مستمعون (سننے والے) نربک ( ہم نے تجھے پالا۔ پرورش کیا) ولید (بچپن) ‘ لبثت (تورہا) ‘ سنین (سن) (سال) ‘ فعلت (تونے کیا) ‘ الضآ لین ( بھٹکنے والے) فررت (میں بھاگ گیا) ‘ وھب (دیا۔ عطا کیا) ‘ تمن (تو احسان جتاتا ہے) ‘ عبدت (تونے غلام بنایا۔ ذلیل کیا) ‘۔ تشریح آیت نمبر 10 تا 22 : اللہ تعالیٰ نے گذشتہ آیات میں ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ نبی اور سو ل کی بات مکمل یقین رکھنے والے ہیں ان کو ایمان لانے کے لئے کسی نشانی اور بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن جن کو عمل اور ایمان سے زیادہ اپنے وقتی مفادات عزیز ہوتے ہیں وہ معجزات اور کھلی نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں اور دین اسلام اور اس کو لانے والے انبیاء کرام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ چناچہ جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت مکہ میں یہی صورتحال تھ یکہ وہ عمل اور ایمان سے بھاگنے کے لئے نبی کریم ﷺ اور اس قرآن مجید پر طرح طرح کے اعتراض کرکے گذشتہ انبیاء پر جس طرح معجزات نازل کئے گئے تھے اس کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ اس سے پہلے آیات میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے جب کوئی قوم اپنے نبی سے کسی معجزے کا مطالبہ کرتی ہے اور ان کے مطالبے پر وہ معجزہ دکھا دیا جاتا ہے اور پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتی تو ان کو سخت عذاب دیاجاتا ہے اور کبھی کبھی انکو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ چونکہ نبی کریم ﷺ جس طرح خاتم الانبیاء ہیں یعنی آپ کے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہوگیا اسی طرح آپ کی امت بھی آخری امت ہے۔ آپ کے بعد اسی امت کو قیامت تک ساری دنیا کی رہبری اور رہنمائی کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے۔ اگر کفار مکہ کا یہ مطالبہ مان لیا جاتا کہ ان کی فرمائش پر کوئی معجزہ دکھا دیا جاتا اور پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے تو اس امت کو ختم ٭ کردیا جاتا۔ لیکن یہ اللہ کی مصلحت کے خلاف ہوتا۔ اس لئے کفار مکہ کے کہنے پر آپ نے کسی معجزہ کی درخواست نہیں فرمائی۔ البتہ آپ سے وہ سیکڑوں معجزات ظاہر ہوئے ہیں جنکو صحابہ کرام ؓ نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے جن کی تفصیلات پر پر علماء امت نے بڑی تفصیل سے کتابیں کھلی ہیں۔ قرآن کریم خودانتا بڑا علمی معجزہ ہے جس کی موجودگی میں کسی اور معجزہ کا مطالبہ کرنا ہی احمقانہ بات ہے کیونکہ جس قرآن کی آیات کے سامنے وقت کے بڑے بڑے شاعر ‘ ادیب اور زبان داں عاجز تھے اور قرآن کریم کی چھوٹی سے چھوٹی ایک آیت یا سورت بنا کر لانے سے بھی عاجز ومجبور تھے ان کو کسی معجزہ کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہ تھا۔ خود نبی کریم ﷺ کی ذات پاک ایک معجزہ ہے کیونکہ آپ نے مکہ کے لوگوں میں سارا وقت گذارا تھا وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا تا۔ وہ ایک چھوٹا سا معاشرہ تھا جس میں کسی شخص کی زندگی کے حالات دوسرے سے چھپ نہ سکتے تھے لیکن چالیس سال کی عمرمبارک میں وحی نازل ہونا شروع ہوئی تو اللہ نے آپ کے قلب مبارک پر ایسے ایسے مضامین نازل فرمائے کہ جب آپ کی زبان مبارک سے ادا ہوتے تو اس کلام کی فصاحت و بلاغت خود کسی معجزہ سے کم نہ تھی اور آپ نے اللہ کے حکم سے امت کو ایسے ایسے مضامین عطا فرمائے کہ آپ کے الفاظ بھی دنیا بھر کی زبانوں پر غالب آگئے۔ غر ضی کہ قرآن کریم اور نبی کریم ﷺ کی ذات ایک معجزہ تھی۔ جب کفار مکہ نے دیکھا کہ ان کے اس مطالبے کا بھی کوئی اثر نہیں ہے جس میں معجزات دکھانے کا مطالبہ کیا گیا تھا تو انہوں نے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو طرح طرح سے ستانا شروع کیا۔ جب حالات انتہائی سنگین ہوگئے اس وقت اللہ نے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو تسلی دینے کے لئے سورة الشعراء کی ان آیات کو نازل فرمایا۔ سورة الشعراء میں سات انبیاء اکرام اور ان کے معجزات کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ‘ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) ‘ حضرت نوح (علیہ السلام) ‘ حضرت ہود (علیہ السلام) ‘ حضرت صالح (علیہ السلام) ‘ حضرت لوط (علیہ السلام) ‘ اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کے واقعات کی کچھ تفصیل ارشاد فرمائی گئی ہے۔ ان آیات میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے یہ حکم دیا کہ تم فرعون کے پاس ہماری نشانیاں لے کر جائو اور اس سے یہ بات کہہ دو کہ اے فرعون تو بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کا سلسلہ ختم کردے اور بنی اسرائیل کو میرے ساتھ فلسطین کی طرف جانے میں رکاوٹ پیدا نہ کر۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا الہٰی ! میں حاضر ہوں مگر مجھ سے نادانستگی میں ایک غلطی ہوگئی تھی کہ قبطی اور اسرائیلی میں جھگڑا ہورہا تھا۔ میں نے دونوں کو لڑنے سے روکا اور اس دوران میرے ایک ہی گھونسے سے قبطی مر گیا تھا اور میں خوف کی وجہ سے مدین چلا گیا تھا۔ الہٰی ! مجھے اندیشہ ہے کہ فرعون میرے فریضہ تبلیغ کو روکنے کے لئے اس واقعہ کو بہانہ بنالے گا۔ دوسرے یہ کہ مجھے بولنے میں بھی رکاوٹ محسوس ہوتی ہے اگر آپ اپنے فضل و کرم سے میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو میرا دست بازو بنادیں تو میں پوری قوت سے آپ کا پیغام فرعون تک پہنچادوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم حضرت ہارون (علیہ السلام) کو نہ صرف آپ کے لئے قوت کا سبب بنا رہے ہیں بلکہ ان کے سر پر تاج نبوت بھی رکھ رہے ہیں تاکہ نبی کی حیثیت سے وہ آپ کے معاون و مدد گار بن جائیں۔ فرمایا کہ تم دونوں نہایت اطمینان سے فرعون کے دربار میں جائو اور اس کو انسانوں پر ظلم و ستم سے روکو۔ میں خود تمہاری نگرانی و حفاظت کروں گا۔ کوئی تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ جب یہ دونوں بھائی فرعون کے دربار میں پہنچے اور انہوں نے کہا کہ ہم اللہ رب العالمین کی طرف سے بھیجے ہوئے آئے ہیں اور یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ تو بنی اسرائیل پر ظلم و ستم سے باز آجا اور بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ (فلسطین کی طرف جانے کی ) اجازت دیدے۔ اس وقت کے فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پہچان لیا کہ یہ تو وہی موسیٰ (علیہ السلام) ہیں جن کو نہایت ناز و نخروں سے ہمارے محل میں پرورش کیا گیا تھا اور ان کا بچپن فرعون کے گھر میں گذرا تھا۔ اس نے کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا تم وہی نہیں ہو جس کو بڑے ناز اور نخروں سے اسی گھر میں پرورش کیا گیا تھا اور تم نے برسوں ہمارے درمیان گذارے ہیں لیکن تم نے ان احسانات کا بدلہ یہ دیا کہ ایک قبطی کو مارڈالا اور آج ہمارے ہی سامنے کھڑے ہو کر ہمیں ظالم و جابر کہہ رہے ہو ؟ ۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) تم بہت ہی ناشکرے آدمی نکلے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وضاحت کا موقع مل گیا آپ نے فرمایا کہ جس قبطی کا قتل میرے ہاتھوں سے ہوا ہے وہ جان بو جھ کر نہیں ہوا تھا بلکہ میں تو ان دونوں کے درمیان سے جھگڑا دور کرانے کی کوشش کررہا تھا اتفاق سے میرا ہاتھ قبطی کے لگ گیا جس سے وہ مر گیا۔ جس کا مجھے افسوس بھی ہے مگر میں نے جان بوجھ کرا یسا نہیں کیا تھا۔ میں اسی خوف سے کہ کہیں مجھے اس کے بدلے میں قتل نہ کردیا جائے مدین کی طرف چلا گیا تھا۔ اور یہ بات مجھ سے اس وقت سرزد ہوئی جب میں اس راہ سے بیخبر تھا۔ اب میرے پروردگار نے مجھے حکمت و دانائی عطا فرما دی ہے اور مجھے رسولوں میں سے ایک رسول بنایا ہے۔ تو نے جن بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنارکھا ہے وہ خود بہت بڑی زیادتی ہے۔ کہنے لگا کہ رب العالمین تو میں خود ہوں تم کس رب العالمین کا ذکر کررہے ہو ؟ اس کا جواب تو اس کے بعد کی آیات میں دیا گیا ہے۔ یہاں تک کی آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھ سے ایک قبطی شخص کا قتل تو بلا ارادہ اختیار کے ہوا تھا جس پر تو اتنا شور کررہا ہے لیکن تو نے پوری قوم بنی اسرائیل کو غلام بنارکھا ہے۔ اتنی خدمات کے بعد بھی ان پر شدید ظلم کیا جاتا ہے اور ان کے بچوں کو ان کی ماؤں کی گود سے چھین چھین کر قتل کیا جارہا ہے۔ اسی ظلم کی وجہ سے میری والدہ نے مجے پانی میں بہادیا تھا تاکہ میں تیرے ظلم سے بچ جاؤں ۔ جب مجھے پانی سے نکال کر تم نے اپنے گھر میں رکھا تو یہ مجھ پر کوئی احسان نہ تھا کیونکہ اگر میری والدہ مجھے وہاں سے نہ ہٹا لیتیں تو میں بھی قتل کردیا جاتا۔ اسی لئے یہ اللہ کا فضل و کرم ہے ورنہ تو نے تو ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی۔ فرعون اس طنز کو برداشت نہ کرسکا۔ کہنے لگا کہ اچھا یہ بتائو کہ یہ تم کس رب العالمین کا ذکر کررہے تھے ؟ وہ کیا ہے ؟ کہاں ہے ؟ اللہ نے ان باتوں کا جواب اگلی آیات میں دیا ہے۔
Top