Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 10
وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب نَادٰي : پکارا (فرمایا) رَبُّكَ : تمہارا رب مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنِ ائْتِ : کہ تو جا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ
اور جب پکارا تیرے رب نے موسیٰ کو کہ ظالم قوم کے پاس جائو
آگے کا مضمون …آیات 68-10 حضرت موسیٰ اور فرعون کی سرگزشت کا بیان آگے حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کی وہ سرگزشت جس کی طرف پچھلی سورة میں اجمالی اشارہ فرمایا گیا تھا، تفصیل کے ساتھ آرہی ہے۔ یہ سرگزشت اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا ہے اور پھر فرعون اور اس کی فوج کی غرقابی پر ختم ہوتی ہے۔ اس دور کے تمام اہم واقعات کی طرف اس میں اشارے ہیں۔ یوں تو اس سرگزشت کا یہ حصہ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کے لئے بھی سرمایہ تسکین و تسلی اور آپ کے مخالفین کے لئے سبق آموز ہے لیکن سورة کے عمود کے پہلو سے خاص چیز جو اس میں قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ اغراض و شہوات کے غلام بن کر اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ضائع کر بیٹھتے ہیں ان پر کوئی بڑے سے بڑا معجزہ بھی کچھ کارگر نہیں ہوتا۔ ان کی آنکھیں صرف اس وقت کھلتی ہیں جب ان کا انجام ان کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ آیت 10۔ 12 یہ حضرت موسیٰ کی سرگزشت کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب مدین سے واپس ہوتے ہوئے وادی مقدس طویٰ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے کلام سے مشرف فرمایا ہے اور ان کو منصب رسالت پر سرفراز کر کے فرعون اور اس کی قوم کے پاس انذار کے لئے جانے کی ہدایت فرمائی۔ ایک خاص اسلوب بیان الایتقون کا اسلوب بیان فرعون اور اس کی قوم کے غایت درجہ طغیان و فساد کو ظاہر کر رہا ہے۔ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ کیا یہ ظالم لوگ اسی طرح بگ ٹٹ اپنی سرکشی میں بڑھتے ہی چلے جائیں گے اور اس کے انجام اور خدا کے قہر و غضب سے نہیں ڈریں گے ؟ آگے آیات 162, 143, 125 اور 178 سے معلوم ہوگا کہ بعینیہ اسی اسلوب سے دوسرے انبیائے کرام نے بھی اپنی اپنی قوموں کو انذار فرمایا ہے۔ اس اسلوب خطاب میں حسرت، غصہ، زجر و ملامت اور عذاب الٰہی کے قرب کی جو وعید ہے وہ محتاج تشریح نہیں ہے۔
Top