Tafseer-e-Baghwi - Yunus : 14
وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب نَادٰي : پکارا (فرمایا) رَبُّكَ : تمہارا رب مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنِ ائْتِ : کہ تو جا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ
اور جب آپ کے پروردگار نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا کہ ظالم لوگوں کے پاس جائیں
آیات 10 تا 33 اسرار و معارف نبی اکرم ﷺ کی شفقت کس قدر ہے اس کا اندازہ کیجیے کہ کفار کا دکھ بھی کس شدت سے محسوس فرماتے ہیں دوستاں راکجا کنی محروم۔ تو کہ بادشمناں نظر داری یعنی جس کا لطف و کرم دشمن پہ بھی عام ہے بھلا دوستوں کو کب محروم کرسکتا ہے تو آپ ﷺ کی تشفی فرماتے ہوئے اللہ کریم نے انسانوں پہ اپنے کرم کی ایک ادا کا تذکرہ فرمایا کہ فرعون کس قدر ظالم اور گستاخ کافر تھا اور اپنے خدا ہونے کا دعویدار بھی مگر اللہ کریم نے اسے بھی محروم نہ رکھا اور اپنے اولوالعزم رسول کو اس کے پاس بھیجا معجزات اور دلائل دیئے اور ہدایت کی طرف بلایا اگر وہ اپنی پسند سے دوسرے راستے پر ہی جانا چاہتا ہو تو پھر ایسے بدبختوں کے لئے دکھ محسوس نہ کیا کیجیئے کہ جب اللہ کریم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اس ظالم قوم یعنی فرعون کی قوم کے پاس جائیے اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دیجیئے کیا وہ اس قدر بےراہ رو ہوگئے ہیں کہ انہیں اللہ کا خوف بھی نہیں رہا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا بارے الہا میرا سینہ بھی ذرا رک رک جاتا ہے یعنی میں فورا جواب نہیں دے پاتا یا بات اور اس کا جواب میرے دل میں فورا نہیں آتے نیز میری زبان بھی روانی سے نہیں چلتی تو آپ ازراہ کرم ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیج دیجیئے نیز انہوں نے تو مجھے قتل کا مجرم بنا رکھا ہے اور ڈر ہے کہ جیسے ہی مجھے پائیں گے قتل کردیں گے تو ارشاد ہوا ہرگز نہیں یعنی ان باتوں میں کچھ بھی آڑے نہ آئے گا چناچہ شرح صدر بھی عطا ہوا بات بھی کرنے میں وہ دشواری حائل نہ رہی اور ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبوت سے سرفراز فرما کر ہمراہ کردیا تو تعمیل ارشاد میں مزید سہولت کے لیے اسباب کا طلب کرنا بہت مناسب اور ضروری ہے انہیں رب کریم عطا فرما کر آسانی بھی فرما دیتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا کہ ان آپ دونوں جائیے اور معجزات و دلائل پیش فرمائیے اور یاد رکھیے میں بھی اپ کے ساتھ ہوں اور سب کچھ سنتا ہوں ہر بات سے باخبر ہوں چناچہ دونوں حضرات فرعون کے دربار ین پہنچے اور اللہ کی طرف دعوت دی اور فرمایا کہ ہم دونوں اس پروردگار کے رسول ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے چناچہ تم اور تمہاری قوم بغاوت اور سرکشی چھوڑ کر اللہ کی اطاعت اختیار کرو نیز بنی اسرائیل کو جو مدتون سے تمہاری غلامی کی چکی میں پس رہے ہیں آزاد کر کے ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دو کہ وہ اپنے وطن اصلی کو لوٹ جائیں بنی اسرائیل کا اصل وطن شام تھا اور گزشتہ چار سو سال سے مصر کے فرعونوں کی غلامی میں جکڑے ہوئے تھے جب موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو تقریبا سوا چھ لاکھ کی تعداد میں تھے۔ مناظر اور کج بحثی یہاں فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سوال و جواب مناظرہ کی صورت میں بیان ہوئے ہیں جس کا رواج تاحال بھی ہے اور عموما مناظرے کے نام پر کج بحثی کرکے محض اپنی بات غالب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ حق یہ ہے کہ دلائل سے حق واضح کیا جائے اور عموما جس فریق کے پاس دلیل نہ ہو وہ کج بحثی پر اتر اتا ہے جیسا کہ فرعون نے یہاں توحید باری کے مقابلے میں اپنی خدائی پر کوئی دلیل نہ دی نہ بنی اسرائیل کو غلامی میں رکھنے کا کوئی جواز پیش کیا بلکہ الٹا موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات پر اعتراض کیا کہ واہ آپ تو وہی ہیں جن کو ہم نے پالا پوسا اور عمر عزیز کا ایک حصہ ہمارے گھر پر بسر کیا آج ہمیں کو دعوت دینے چلے آئے اور پھر آپ کو تو یہ بھی پتہ ہے کہ کتنا بڑا جرم آپ نے کیا تھا ایسے لوگ اصلاح کی دعوت دینے والے ہوتے ہیں آپ نے اس کی کج بحثی کا بھی صحیح طریقے سے اور حق بیان کرتے ہوئے جواب دیا کہ واقعی وہ مجھ سے خطا ہوگئی تھی مگر وہ قتل عمد نہ تھا میں نے قنطی کو ظلم سے روکا وہ باز نہ آرہا تھا تو منع کرنے کے لیے مکہ رسید کردیا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی اور یہ میری بھول تھی جو نبوت کے منافی نہیں پھر میں تمہارے قانون سے بچنے کے لیے تمہارے ملک سے ہی چلا گیا کہ یہاں اسرائیلی پر ظلم تو ظلم نہیں کہلاتا اور قبطی اگر غلطی سے بھی مارا گیا تو سخت سزا ملے گی اللہ نے مجھ پر احسان فرمایا اور مجھے نبوت و رسالت سے سرفراز فرما دیا کہ یہ ضطا اس کے منافی نہ تھی نہ کسی خطا کے ارادے سے کی گئی تھی اور اب فریضہ رسالت ادا کرنے تمہارے پاس آگیا ہوں رہی تمہاری یہ بات کہ پرورش کا احساس جتاتے ہو تو ذرا اپنے ظلم کو دیکھوتو ذرا اپنے ظلم کو دیکھو جو مجھے تمہارے پاس پہنچانے کا سبب بنا کہ بنی اسرائیل کو تم نے غلامی کی زنجیر میں جکڑ رکھا تھا پھر ان کے بچے قتل کرانے شروع کردئیے تو مجھے میری ماں نے دریا میں ڈال دیا جہاں سے تم نے لے لیا اور پالنے لگے بھلا یہ تمہارا کیا احسان تھا یہ تو تمہارے ظلم کے باعث ہوا اور اللہ نے اپنی قدرت کا اظہار فرمایا کہ جسے مارنے کے لیے تم نے بچے قتل کرانے شروع کئے تھے اس کی پرورش تمہارے گھر پہ کرنا پڑی۔ فرعون لاجواب ہوا تو کہنے لگا بلا پروردگار عالم کون ہے اپنی ساری بات سے دوسری طرف پلٹ گیا آپ نے فرمایا وہ پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ بھی ان میں ہے اس سب کا یعنی اس نے ذات باری اور اس کی کنہ کے بارے سوال کیا آپ نے جواب صفات باری سے دیا کہ اس کی ذات کی کنہ کو پانا ممکن نہیں لہذا فرمایا کہ اگر تم میں یقین کرنے اور نتائج کو سمجھنے کی صلاحیت ہے تو کائنات کا ہر ذرہ اس کی ربوبیت کا گواہ ہے فرعون اہل دربار سے کہنے لگا ذرا سنو تو ہم کیا پوچھ رہے ہیں اور جواب کیا ہے آپ نے فرمایا کہ وہ پروردگار ہے تمہارا بھی اپنی ذات پر غور کرو تمہیں کس نے پیدا کیا اگر تم خدا تھے تو تمہارے باپ دادا کو کس نے پیدا کیا ان کا رب بھی وہی ہے اب فرعون کے پاس کج بحثی کی گنجائش بھی نہ رہی تو کہنے لگا کہ یہ رسول جو آپ لوگوں کی طرف مبعوث ہوا ہے پاگل لگتا ہے تو آپ نے فرمایا وہ تو مشرق و مغرب کا رب ہے طلوع و غروب کا نظام اسی کا ہے اور جو کچھ اس کے اندر ہے اس سارے نظام کو بھی وہی چلاتا ہے فرعون بھڑک اٹھا کہنے لگا اگر میرے علاوہ کسی کو معبود مانو گے تو تمہیں جیل میں ڈال دوں گا یہ اس کے دلائل سے عاجز ہونے کی آخری دلیل تھی مگر ابھی تک تو بات زبانی تھی آپ نے فرمایا اگر اس سے بھی بڑی دلیل یعنی معجزہ بھی پیش کردوں تب بھی تو فرعون نے کہا لائیے معجزہ ابھی آپ کی صداقت بھی کھل جاتی ہے۔ تو آپ نے عصا پھینک دیا جو قدرت الہی سے بہت بڑا اژدہا بن گیا اور آپ نے اپنا ہاتھ بغل میں دے کر نکالا تو وہ چاند سا روشن ہوگیا۔
Top