Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 43
وَ صَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ
وَصَدَّهَا : اور اس نے اس کو روکا مَا : جو كَانَتْ تَّعْبُدُ : وہ پرستش کرتی تھی مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے اِنَّهَا : بیشک وہ كَانَتْ : تھی مِنْ قَوْمٍ : قوم سے كٰفِرِيْنَ : کافروں
اور سلیمان نے اسے اس سے روک دیا جو وہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتی تھی بلاشبہ وہ کافر قوم میں سے تھی
(وَصَدَّھَا مَا کَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) اول یہ سمجھیں کہ صد فعل ہے اور ھا ضمیر مفعول مقدم ہے اور (ما کانت تعبد) صلہ موصول مل کر فعل کا فاعل ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ جو غیر اللہ کی عبادت کرتی تھی اس کے اس عمل نے اسے اللہ کی عبادت کرنے سے روک دیا تھا اور بعض حضرات نے اس کا دوسرا مطلب یہ بتایا ہے اور وہ یہ کہ (ما کانت تعبد) صلہ موصول مل کر مفعول ہے اور فاعل ضمیر ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے اور اس صورت میں مطلب یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس عورت کو اس کے عمل یعنی عبادت لغیر اللہ سے روک دیا۔ اس صورت میں عن حرف جار مقدر ہوگا۔ یعنی وَصَدَّھَا مَا کَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ۔ (اِِنَّہَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ ) (بلاشبہ وہ کافر قوم میں سے تھی) چونکہ وہ ملک سبا کی رہنے والی تھی اور وہاں کے لوگ کافر تھے اس لیے وہ بھی ان کی دیکھا دیکھی کفر اختیار کیے ہوئی تھی کیونکہ اکثر اوقات قومی رواج اور قومی عادت انسان کو سوچنے سمجھنے کے بارے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، چونکہ وہ عورت عاقلہ تھی اس لیے جب اسے تنبہ ہوگیا تو سمجھ گئی کہ واقعی میں غلطی پر ہوں میرا دین شرک غلط ہے مجھ سے زیادہ تو اس شخص کا جلال ہے جس نے مجھے خط لکھا ہے۔
Top