Ruh-ul-Quran - An-Naml : 43
وَ صَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ
وَصَدَّهَا : اور اس نے اس کو روکا مَا : جو كَانَتْ تَّعْبُدُ : وہ پرستش کرتی تھی مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے اِنَّهَا : بیشک وہ كَانَتْ : تھی مِنْ قَوْمٍ : قوم سے كٰفِرِيْنَ : کافروں
اور اسے روک رکھا تھا ایمان لانے سے ان چیزوں نے جن کو اللہ کے ماسوا وہ پوجتی رہی تھی کیونکہ وہ ایک کافر قوم میں سے تھی
وَصَدَّھَا مَا کَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط اِنَّھَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ ۔ (النمل : 43) (اور اسے روک رکھا تھا ایمان لانے سے ان چیزوں نے جن کو اللہ کے ماسوا وہ پوجتی رہی تھی کیونکہ وہ ایک کافر قوم میں سے تھی۔ ) ایک سوال کا جواب گزشتہ آیت کی وضاحت سے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر ملکہ اور اس کے عمائدین حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے علم و حکمت سے اس قدر متأثر اور قلبی طور پر ان کے مطیع اور منقاد تھے تو پھر وہ مسلمان کیوں نہ ہوئے اور اب تک ایک غلط دین پر قائم کیوں رہے ؟ اس آیت کریمہ میں اس کا جواب دیا گیا ہے کہ دو چیزیں اس کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی تھیں جو ہر صالح تبدیلی کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اسے آفتاب کی پرستش اپنے آبائواجداد سے ورثے میں ملی تھی۔ اور دوسری یہ بات کہ اس کا تعلق ایک کافر قوم سے تھا۔ یعنی ایک طرف آبائواجداد کی تقلید اور دوسری طرف قومی روابط کی زنجیر، جبکہ وہ اس قوم کی ملکہ بھی تھی، اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ یوں تو ایک عام آدمی بھی اپنے تعصبات کے پتھروں کو ہٹانے میں جلدی کامیاب نہیں ہوتا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ اسے توفیق دے دے۔ لیکن جہاں تک حکمرانوں کا تعلق ہے انھیں اپنی سیادت و قیادت کے باعث ان بندھنوں کا توڑنا دوسرے لوگوں سے ہزار گنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ لیکن یہ ملکہ کی سلامتِ طبع اور قوت فیصلہ کا نتیجہ تھا کہ وہ اپنے ماحول کی بالکل غلام بن کر نہیں رہی بلکہ وقت آنے پر اس نے ان تمام رکاوٹوں کو توڑ ڈالا۔
Top