Tafseer-e-Madani - An-Naml : 43
وَ صَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ
وَصَدَّهَا : اور اس نے اس کو روکا مَا : جو كَانَتْ تَّعْبُدُ : وہ پرستش کرتی تھی مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے اِنَّهَا : بیشک وہ كَانَتْ : تھی مِنْ قَوْمٍ : قوم سے كٰفِرِيْنَ : کافروں
مگر اس قدر عقل مند عورت ہونے کے باوجود اس کو روک رکھا تھا راہ حق و صواب سے اس کے ان خود ساختہ معبودوں نے جن کی وہ پوجا پاٹ کرتی تھی اللہ کے سوا، کہ تھی تو وہ بہرحال ایک کافر قوم ہی میں سے،
44 ماحول کے اثرات کا نتیجہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ تھی تو کافر قوم ہی میں سے یعنی خود ذاتی طور پر تو وہ اگرچہ بڑی زیرک اور سمجھدار عورت تھی لیکن اس نے جب سے آنکھ کھولی وہ یہی بت پرستی اور مظاہر پرستی دیکھتی رہی۔ تو اس قدر سمجھ دار ہونے کے باوجود ماحول اور گرد و پیش کا یہ اثر اس پر چھا گیا اور اصل حقیقت اس سے گم ہوگئی۔ سو اس سے ماحول کے انسانی بناؤ و بگاڑ میں اثر اندازی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ۔ صحبت صالح ترا صالح کند ۔ صحبت طالح ترا طالح تراکند ۔ کہ " اچھی صحبت تم کو اچھا اور صالح انسان بنا دے گی اور بری صحبت تم کو بگاڑ کر رکھ دی گے " ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ملکہ سبا اس قدر زیرک ہونے کے باوجود اور حضرت سلیمن کی عظمت شان اور آپ (علیہ السلام) کے کارناموں سے آگہی رکھنے کے باوصف اپنے گندے ماحول اور برے گرد و پیش کی بنا پر کفر و شرک کی دلدل ہی میں پھنسی رہی اور بتوں کی پوجا و پرستش میں مبتلا رہی کہ تھی تو وہ ایک کافر قوم ہی میں سے کہ روایات اور علاقائی قومی روابط کے بندھنوں کو توڑنا اور ان سے آزادی اور گلوخلاصی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اور یہ مشکل یوں تو ایسے ہر شخص کو پیش آتی ہے جو اس طرح کے ماحول میں پھنسا ہو لیکن جن لوگوں کو سیادت اور قیادت کا منصب حاصل ہوتا ہے ان کیلئے یہ مشکل دوچند ہوجاتی ہے۔ اور ایسے لوگ اپنے ماحول اور ایسی روایات کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔ دعویٰ تو ان کا حکومت اور پیشوائی کا ہوتا ہے لیکن ہوتے وہ عوامی خواہشات و روایات کے غلام ہیں۔ اور ان کے بندھنوں سے رہائی پانا ان کے بس میں نہیں رہتا۔
Top