Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 15
قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ١ؕ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِۚ
قُلْ : کہ دیں اَؤُنَبِّئُكُمْ : کیا میں تمہیں بتاؤں بِخَيْرٍ : بہتر مِّنْ : سے ذٰلِكُمْ : س لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اتَّقَوْا : پرہیزگار ہیں عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب جَنّٰتٌ : باغات تَجْرِيْ : جاری ہیں مِنْ : سے تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں وَاَزْوَاجٌ : اور بیبیاں مُّطَهَّرَةٌ : پاک وَّرِضْوَانٌ : اور خوشنودی مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھنے والا بِالْعِبَادِ : بندوں کو
آپ فرما دیجیے کیا میں تم کو اس سے بہتر بتادوں ؟ جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے اور بیویاں ہیں پاکیزہ، اور رضا مندی ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ بندوں کو دیکھنے والا ہے۔
اہل تقویٰ کا آخرت میں انعام لوگوں کی دنیاوی مرغوبات ذکر فرمانے کے بعد اس آیت میں آخرت کی نعمتوں کو ذکر فرمایا اور بتادیا کہ ان دنیاوی چیزوں سے بہتر وہ چیزیں ہیں جو آخرت میں نصیب ہوں گی لیکن وہ ہر شخص کو نہیں ملیں گی۔ وہ اہل تقویٰ کو نصیب ہوں گی۔ سب سے بڑا تقویٰ تو یہ ہے کہ انسان کفر اور شرک سے بچے اور ایمان قبول کرے ایمان کے بغیر کوئی عمل صالح معتبر نہیں اور اس کے بعد تقویٰ کے درجات ہیں، کبیرہ گناہوں سے بچنا یہ بھی تقویٰ ہے اور مشتبہات سے بچنا بھی تقویٰ ہے۔ متقی بندوں سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کے رب کے پاس انہیں ایسے باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ مزید برآں یہ کہ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ بیویاں بھی ملیں گی (پاکیزہ کا مطلب سورة بقرہ کے رکوع 3 کی تفسیر میں دیکھ لیجئے) ۔ رضائے الٰہی : اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے ان سب سے اپنی رضا مندی کا اعلان فرما دیا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی رضا ہر نعمت سے بڑھ کر ہے اور سب سے بڑی چیز ہے۔ سورة توبہ میں فرمایا (وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ ) اور جگہ جگہ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ ) کا اعلان فرمایا ہے ایک غلام کی اس سے بڑھ کر کیا سعادت اور نیک بختی ہوگی کہ اس کا آقا اس سے راضی ہو۔ حضرت رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جنت والوں سے فرمائیں گے کہ اے جنت والو ! وہ عرض کریں گے اے ہمارے رب ہم حاضر ہیں اور تعمیل ارشاد کے لیے موجود ہیں اور پوری خیر آپ ہی کے قبضہ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تم راضی ہو ؟ وہ عرض کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کیسے راضی نہ ہوں گے۔ آپ نے ہم کو وہ کچھ عطا فرمایا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں دیا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا میں تم کو اس سے افضل چیز عطا کر دوں ؟ وہ عرض کریں گے اے پروردگار اس سے افضل اور کیا چیز ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ میں تم پر اپنی رضا مندی نازل کرتا ہوں۔ اب اس کے بعد کبھی بھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔ (بخاری و مسلم) اہل تقویٰ کو ان کے رب کے پاس جو نعمتیں ملیں گی جن میں سب سے بڑی نعمت اللہ کی رضا ہے ان کا ذکر فرمانے کے بعد ان حضرات کی دعا کا تذکرہ فرمایا اور ان کی چند صفات ذکر فرمائیں کہ وہ لوگ یوں دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے لہٰذا آپ ہمارے گناہوں کو بخش دیجیے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچائیے۔ پھر ان کی صفات کا تذکرہ فرمایا اور صفت صبر کو مقدم کیا اور فرمایا۔
Top