Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 15
قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ١ؕ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِۚ
قُلْ : کہ دیں اَؤُنَبِّئُكُمْ : کیا میں تمہیں بتاؤں بِخَيْرٍ : بہتر مِّنْ : سے ذٰلِكُمْ : س لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اتَّقَوْا : پرہیزگار ہیں عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب جَنّٰتٌ : باغات تَجْرِيْ : جاری ہیں مِنْ : سے تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں وَاَزْوَاجٌ : اور بیبیاں مُّطَهَّرَةٌ : پاک وَّرِضْوَانٌ : اور خوشنودی مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھنے والا بِالْعِبَادِ : بندوں کو
آپ کہیے کہ کیا میں تمہیں ایسی چیز کی خبردوں جو ان (چیزوں) سے (کہیں) بہتر ہے،36 ۔ جو لوگ ڈرتے رہتے ہیں ان کے لئے ان کے پروردگار کے پاس باغ ہیں کہ ان کے نیچے نہریں پڑی بہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں،37 ۔ اور صاف ستھری کی ہوئی بیویاں ہوں گی،38 ۔ اور اللہ کی خوشنودی ہوگی،39 ۔ اور اللہ اپنے بندوں کا خوب دیکھنے والا ہے،40 ۔
36 ۔ (کیا یہ لحاظ کیفیت، کیا بہ لحاظ کمیت اور کیا یہ لحاظ قیام و دوام) خطاب عام انسانوں سے، رسول اللہ ﷺ کے واسطہ سے ہے۔ (آیت) ” ذلکم “۔ یعنی یہ چیزیں جو سرتا سر بےثبات وبے حقیقت ہیں۔ 37 ۔ (آیت) ” الذین اتقوا “ یعنی جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں۔ خوف خدا پر رحمت الہی کے مرتب ومتوجہ ہونے کا ذکر قرآن مجید ہی نہیں اگلے صحیفوں میں بھی بار بار آیا ہے۔ چناچہ توریت کے حوالہ پارۂ اول کے حواشی میں گزر چکے۔ مسیحیوں کے مقدس نوشتے بھی خوف و خشیت کے ذکر سے خالی نہیں۔ ” اور اس کا رحم ان پر جو اس سے ڈرتے ہیں پشت در پشت رہتا ہے (لوقا 1:5) ” آؤ اپنے آپ کو ہر طرح کی جسمانی آلودگی سے پاک کردیں اور خدا کے خوف کے ساتھ پاکیزگی کو کمال تک پہنچائیں “۔ (2 ۔ کرنتھیون۔ 7: 1) ” وہ وقت بھی آپہنچا ہے کہ بڑے بڑے نبیوں اور مقدسوں اور ان چھوٹے بڑوں کو جو تیرے نام سے ڈرتے ہیں، اجر دیا جائے۔ 38 ۔ (ان کے لیے جنت میں) (آیت) ” مطہرۃ “۔ پاک صاف کی ہوئی ہر جسمانی آلودگی ونجاست سے۔ قرآن مجید نے بار بار اس پر زور دیا ہے کہ اہل جنت کے لیے راحت ولذت کا سامان ہر قسم کا ہوگا مادی لطف کا بھی، ذہنی لطف کا بھی، روحانی لطف کا بھی، پھر اگر انہیں وہاں بیویاں بھی عنایت ہوں، ہر طرح پاک صاف اور لطف ازدواجی بھی پوری طرح اٹھانے کا موقع مے تو اس میں ” روشن خیالی “ کے شرمانے کی کونسی بات ہے ؟۔ 39 ۔ (جو حاصل اور عطر ہے ساری نعمتوں ولذتوں، راحتوں کا) (آیت) ” رضوان “۔ کی تنوین اظہار عظمت کے لیے ہے) ای رضا عظیم علی ما یشعربہ التنوین (روح) 40 ۔ (اور ان کے احوال، اقوال، اعمال کے ایک ایک جزئیہ سے پوری طرح خبردار ہے) پس اس کا احتمال ہی نہیں کہ کوئی چھوٹی سی چھوٹی چیز بھی حساب یا صدور جزائے سے رہ جائے۔
Top