Tibyan-ul-Quran - Al-Baqara : 256
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب لَقِيْتُمُ : تمہاری مڈبھیڑ ہو الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے كَفَرُوْا : کفر کیا زَحْفًا : (میدان جنگ میں) لڑنے کو فَلَا تُوَلُّوْهُمُ : تو ان سے نہ پھیرو الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع)
اے ایمان والو ! جب تم کافروں سے دو بدو مقابل ہوجاؤ تو ان سے پشت مت پھیرو۔
جب کافروں سے مقابلہ ہو تو جم کر قتال کرو اس آیت میں اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ جب کافروں سے مقابلہ ہوجائے تو جم کر لڑیں پشت پھیر کر نہ بھاگیں۔ کیونکہ یہ گناہ کبیرہ ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، عرض کیا گیا یا رسول اللہ وہ کیا ہے ؟ فرمایا (1) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا (2) جادو کرنا (3) کسی جان کو قتل کرنا جس کا قتل اللہ نے حرام قرار دیا الایہ کہ حق کے ساتھ ہو (4) سود کھانا (5) یتیم کا مال کھانا (6) جنگ کے موقعہ پر پشت پھیر کر چلا جانا (7) مومن پاک دامن عورتوں کو تہمت لگانا جن کو برائی کا دھیان تک نہیں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 71) آیت بالا میں فرمایا کہ جو شخص جنگ کے موقعہ پر پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں آگیا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ اسی لیے علماء کرام نے فرمایا کہ جہاد سے بھاگنا حرام ہے۔ دو صورتیں مستثنیٰ ہیں : البتہ دو صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں پشت پھیر کر چلا جانا جائز ہے ایک تو یہ کہ مقصود بھاگنا نہ ہو بلکہ اسے بطور ایک تدبیر کے اختیار کر رہا ہو۔ بظاہر جا رہا ہو (جس سے دشمن یہ سمجھے کہ یہ شکست کھا گیا) اور حقیقت میں واپس ہو کر حملہ کرنے کی نیت رکھتا ہو، جس کو اردو کے محاورہ میں پینترا بدلنا کہتے ہیں۔ اس کو (مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ ) سے تعبیر فرمایا یا کہ جس جگہ جنگ کر رہا ہو اسے چھوڑ کر ایسی جگہ چلا جائے جو قتال کے لیے زیادہ مناسب ہو یا کافروں کی ایک جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعت کی طرف چلا جائے آیت کے الفاظ اس سب کو شامل ہیں۔ دوسری صورت جس میں پشت پھیر کر جانے کی اجازت ہے وہ یہ ہے کہ کوئی جنگ کرنے والا مسلمان، مسلمانوں کی کسی جماعت کے پاس چلا جائے تاکہ ان کو ساتھ ملا لے اور ان کو ساتھ لے کر جنگ کرے اس کو مُتَحَیّزًا اِلٰی فِءَۃٍ سے تعبیر فرمایا۔ صحابہ ؓ کا ایک واقعہ : حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان فرمایا کہ کافروں سے لڑنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ہمارا ایک چھوٹا سا دستہ بنا کر بھیجا اس موقعہ پر کافروں نے حملہ کیا اس کی وجہ سے ہم لوگ محاذ چھوڑ آئے، اور مدینہ منورہ آگئے اور یہ سمجھ کر کہ ہم ہلاک ہوگئے رو پوش ہوگئے پھر آنحضرت سرور عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم تو راہ فرار اختیار کرنے والوں میں سے ہیں آپ نے فرمایا (نہیں) بلکہ تم لوگ جماعت کی طرف ٹھکانہ پکڑنے والے ہو اور میں تمہاری جماعت ہوں (آپ کا مطلب یہ تھا کہ قرآن مجید میں جو دو صورتوں میں بھاگنے کی اجازت دی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنی جماعت کی طرف ٹھکانہ پکڑے۔ لہٰذا تم ان لوگوں میں شمار ہو جو اپنے لشکر اور جماعت کی طرف پناہ لینے کے لیے آئے، مدینہ میں آنا میرے پاس آنا ہے اور میرے ساتھ مسلمانوں کی جماعت ہے۔ تم اپنی جماعت کی طرف آئے ہو اپنے کو ہلاک نہ سمجھو) ۔ (رواہ الترمذی فی اواخر ابواب الجہاد) فائدہ : حدیث کی تصریح سے (جس میں سات کبائر بیان کیے گئے ہیں) اور آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ دو صورتوں کے علاوہ میدان جہاد کو چھوڑ کر بھاگ جانا گناہ کبیرہ ہے کیونکہ قرآن مجید میں (فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاْوٰیہُ جَھَنَّمُ ) فرمایا ہے البتہ دیگر معاصی کبیرہ کی طرح توبہ کرنے سے یہ گناہ بھی معاف ہوجاتا ہے جیسا کہ غزوۂ حنین کے شرکاء کے بارے میں فرمایا (ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰہُ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ ) بارہ ہزار کا لشکر کبھی مغلوب نہ ہوگا : فقہاء نے لکھا ہے کہ یہ میدان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے کی حرمت اس صورت میں ہے جبکہ کافروں کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے کم ہو یا برابر یاد گنی ہو یا زائد تو ہو لیکن دو گنی سے کم ہو۔ اگر کافروں کی تعداد دو گنی سے زیادہ ہو تو راہ فرار اختیار کرنا جائز ہے ان حضرات کا استدلال آیت شریفہ (فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا ماءَتَیْنِ ) سے ہے اور صاحب روح المعانی نے حضرت امام محمد بن الحسن سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر بارہ ہزار ہو تو میدان چھوڑ کر بھاگنا جائز نہیں ہے کیونکہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ لن یغلب اثنا عشر الفاً من قلۃ یعنی بارہ ہزار کا لشکر قلت کی وجہ سے ہرگز مغلوب نہ ہوگا (رواہ الترمذی) جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہے تو بارہ ہزار مسلمانوں کا لشکرہونے کی صورت میں میدان چھوڑ کر چلے جانے کی اجازت نہیں ہے خواہ دشمنوں کا لشکر کتنا بھی زیادہ ہو اور یہ بات بارہا آزمائی جا چکی ہے۔ بارہ ہزار کا لشکر قلت کی وجہ سے مغلوب نہ ہوگا۔ اخلاص نہ ہونے یا اعجاب نفس کی وجہ سے مغلوبیت ہوجائے یہ دوسری بات ہے (کماوقع غزوۃ حنین) غزوۂ بدر میں کافروں کی تعداد تین گنا تھی پھر بھی فرار کی اجازت نہ تھی کیونکہ اس وقت تک آیت کریمہ (اَلْءٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ ) نازل نہیں ہوئی تھی۔
Top