Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 154
ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
ثُمَّ اٰتَيْنَا : پھر ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب تَمَامًا : نعمت پوری کرنے کو عَلَي : پر الَّذِيْٓ : جو اَحْسَنَ : نیکو کار ہے وَتَفْصِيْلًا : اور تفصیل لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کی وَّهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ بِلِقَآءِ : ملاقات پر رَبِّهِمْ : اپنا رب يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لائیں
(ہاں) پھر (سن لو کہ) ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی تھی تاکہ ان لوگوں پر جو نیکو کار ہیں نعمت پوری کردیں اور (اس میں) ہر چیز کا بیان (ہے) اور ہدایت (ہے) اور رحمت ہے تاکہ (انکی امت کے) لوگ اپنے پروردگار کے روبرو حاضر ہونیکا یقین کریں۔
(6:154) ثم اتینا موسیٰ الکتب۔ یہاں ثم کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ ثم پھر ۔ التراخی فی الوقت کے لئے بولا جاتا ہے ۔ یعنی ماقبل سے مابعد کے وقت کے لحاظ سے متاخر ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ لیکن بعض دفعہ التراخی فی الزنیہ کے لئے بھی بولتے ہیں۔ ایسے موقع پر اس کے معنی ہوں گے مزید برآں۔ اس سے بڑھ کر۔ ان معنوں میں یہ آیۃ 2:29 میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے۔ ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموت وہی ذات ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے واسطے پیدا کیا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو سات آسمان مکمل کر دئیے۔ یہاں تراخی فی الوقت تو ہو نہیں سکتا کیونکہ سورة والنزعات 79:28 میں آسمان کے پیدا کرنے کے بعد آیۃ 30 میں فرمایا والارض بعد ذلک وجھا (79:30) اس کے بعد اس نے زمین کو بجھایا۔ لیکن یہ محض لغوی بحث ہے درحقیقت قرآن میں کہیں زمین کی پیدائش کا پہلے ذکر ہے اور آسمانوں کی پیدائش کا ذکر بعد میں اور کہیں زمین کے ذکر کو آسمانوں کے ذکر پر مقدم کیا گیا ہے کیونکہ کسی جگہ بھی مقصود کلام یہ نہیں ہے کہ کس کو پہلے بنایا گیا اور کس کو بعد میں۔ بلکہ موقع محل کے مطابق ہر ایک کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو بیضاوی 6:164 ۔ تفہیم القرآن 79:20) ثم عاطفہ ہے۔ اور اس کا عطف وصکم پر ہے۔ اور یہ عطف ایک خبر کے بعد دوسری خبر بتانے کے لئے ہے کہ جب اللہ پاک اپنے قول وان ھذا صراطی مستقیما کے ذریعہ قرآن سے متعلق خبر دے چکا تو مدح توریت پر ثم کے ذریعہ عطف فرمایا۔ کہ اب تمہیں یہ بھی خبر دیتے ہیں کہ ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی کتاب دی تھی جو کہ تماما علی الذی ۔۔ الخ تھی۔ تماما۔ پورا کرنا۔ پورا ہونا۔ تمام کرنا۔ تمام ہونا۔ کسی شے کے تمام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس حد تک پہنچ چکی کہ اب کسی خارجی شے کی اس کو احتیاج نہیں رہی۔ مکمل ۔ ناقص کی ضد ہے ناقص وہ ہے جو کسی خارجی شے کا محتاج ہو (یہاں پورا ہونا بطور نعمتوں اور نصانح کے ہے) ۔ علی الذین احسن۔ علی کل من احسن۔ ہر وہ شخص جو نیک عمل کرے۔ بھلائی کی روش اختیار کرے۔
Top