Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 154
ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
ثُمَّ اٰتَيْنَا : پھر ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب تَمَامًا : نعمت پوری کرنے کو عَلَي : پر الَّذِيْٓ : جو اَحْسَنَ : نیکو کار ہے وَتَفْصِيْلًا : اور تفصیل لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کی وَّهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ بِلِقَآءِ : ملاقات پر رَبِّهِمْ : اپنا رب يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لائیں
پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی، جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر (نعمت) پوری ہو، اور ہر (ضروری) چیز کی تفصیل (اس کے ذریعہ سے ہوجائے) اور (باعث) ہدایت ہو، اور (ذریعہ) رحمت ہو تاکہ وہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات پر یقین لائیں،244 ۔
244 ۔ بنی اسرائیل کے تمام امراض کا سرچشمہ یہی تھا کہ ان کا اعتقاد آخرت ڈھیلا ہو کر برائے نام رہ گیا تھا۔ مذہب کو جس حد تک مانتے بھی تھے۔ محض دنیوی بہبود و ترقی کے خاطر۔ ٹھیک وہی نقطہ نظر جو آج بھی یورپ زادوں اور یورپ زادوں اور یورپ زدوں کا ہوگیا ہے۔ مذہب کے ان پہلوؤں سے انہیں بحث ہی نہیں کہ اس میں ذات وصفات باری کا ذکر کتنا اعلی اور مفصل ہے۔ نجات کی کیسی کیسی تشفی بخش صورتیں اس نے بتائیں ہیں۔ غرض یہ کہ دائمی راحت کے حصول میں وہ کہاں تک معین ہے، بلکہ تلاش صرف ان مسئلوں کی رہ گئی ہے۔ جن سے اس دنیا میں فوری سکھ حاصل ہوسکے ! (آیت) ” ثم “۔ اوپراثبات توحید وابطال شرک کا مضمون معہ فروع کے تھا۔ اب اس کے ختم ہونے پر نبی ونبوت کا مضمون شروع ہوتا ہے۔ (آیت) ” ثم “۔ اسی اظہار کے لیے ہے (تھانوی (رح) یہ بھی کہا گیا ہے کہ ثم کے بعد قل محذوف ہے اور ثم کا عطف سابق کے قل تعالوا پر ہے۔ قیل عطف علی قل وفیہ حذف ای قل تعالوا ثم قل اتینا موسیٰ (روح) معناہ ثم قل اتینا موسیٰ لانہ عطف علی قل تعالوا (جصاص) ثم لترتیب الاخبار لا لتراخی الزمان (کمالین) (آیت) ” ثم “۔ جب جملہ پر آتا ہے تو واو عطف کے معنی میں دیتا ہے۔ اور یہ معنی بھی یہاں جائز قرار دئیے گئے ہیں۔ ثم مع الجملۃ تأتی بمعنی الواو (مدارک) (آیت) ” موسیٰ الکتب “۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی کتاب کا ذکرخاص طور پر شاید اس مناسبت سے ہو کہ ان کے نام اور شہرت سے اختلاط یہود کے بعث، مشرکین عرب خوف واقف تھے، اور بنی اسمعیل بنی اسرائیل کے چچا زاد بھائی بھی تھے، (آیت) ” الذی “۔ بطور اسم جنس آیا ہے اس لیے جمع کے معنی دیتا ہے۔ یرید جنس المحسنین (مدارک) (آیت) ” تفصیلا لکل شیء “۔ یعنی صحیفہ موسوی میں محض اجمالا کچھ اصول وقواعد نہیں بتا دیئے گئے تھے، بلکہ احکام کی ضروری تفصیل بھی کردی گئی تھی، ای بیانا مفصلا لکل ما یحتاج الیہ فی الدین (روح) بیانا مفصلا لکل مایحتاجون الیہ فی دینھم (مدارک) (آیت) ” ھدی “۔ یعنی وہ باعث ہدایت ہو اپنے مخاطبین کے لیے۔ (آیت) ” رحمۃ “۔ یعنی وہ ذریعہ رحمت ہو اپنے ماننے والوں کے حق میں۔
Top