Anwar-ul-Bayan - Al-Haaqqa : 38
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَا تُبْصِرُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم دیکھتے ہو
تو ہم کو ان چیزوں کی قسم جو تم کو نظر آتی ہیں
(69:38) فلا اقسم : میں لا نفی کا بھی ہوسکتا ہے جس کی دو صورتیں ممکن ہیں :۔ (1) بات صاف ظاہر ہے قسم کھا کر پختہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ (2) لا کا تعلق کلام محذوف سے ہے یعنی کافر جو یہ کہتے ہیں کہ محمد ﷺ نے قرآن کی نسبت خدا کی طرف غلط کی ہے۔ یہ خود شاعر اور کاہن ہے اور حشر و نشر کچھ نہہوگا۔ یہ باتیں سچ نہیں ہیں میں قسم کھاتا ہوں۔ (تفسیر مظہری) جمہور مفسرین کے نزدیک لااقسم میں تاکیدکا ہے۔ لغات القرآن میں ہے :۔ اقسم میں قسم کھاتا ہوں۔ اقسام (افعال) سے جس کے معنی قسم کھانے کے ہیں :۔ مضارع کا صیغہ واحد متکلم۔ یہ دراصل قسامۃ سے ماخوذ ہے۔ قسامت وہ قسمیں ہیں جو اولیاء مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں :۔ (1) اپنی ذات مقدسہ کی۔ (2) اپنے افعال حکیمانہ کی۔ (3) اپنی مخلوق کی۔ مخالفین قرآن پر جو اعتراض کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے قسمیں کیوں کھائیں۔ یہ اعتراض طرح طرح کی رنگ آمیزیوں کے ساتھ مختلف طور پر دہرایا جاتا رہتا ہے۔ لیکن قسم کی حقیقت اور تاریخ پر ذرا غور وفکر کی زحمت گوارہ کی جائے تو یہ عقدہ خود بخود حل ہوجائے گا۔ اصل میں قسم کا استعمال ابتداء اس طرح شروع ہوا کہ جب کوئی اہم واقعہ بیان کیا جاتا تو اس کی صحت اور تصدیق کے لئے کسی شخص کی گواہی پیش کی جاتی یہی طریقہ جب بڑھنے لگا تو انسان کے علاوہ حیوانات و جمادات کی شہادت بھی فرض ثبوت میں آنے لگی۔ مثلاً ہم خود اپنی زبان میں کہتے ہیں ” درو دیوار۔ اس بات پر شاہد ہیں “ آسمان و زمین اس پر گواہ ہیں۔ اس نے جنگ میں جس طرح جانبازی کے جوہر دکھائے میدان جنگ اس کی گواہی دے سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ عربی زبان میں اس کی ہزاروں مثالیں ہیں۔ اس قسم کی شہادتوں سے اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ یہ چیزیں زبان حال سے اس کی شاہد ہیں۔ یعنی اگر ان میں ذرا بھی بولنے کی سکت ہوتی تو ضرور کہہ اٹھتیں کہ ہاں یہ واقعہ سچ ہے، یہی طریقہ آگے چل کر قسم کے معنی میں مستعمل ہونے لگا۔ چناچہ خود قرآن مجید میں بھی شہادت کا لفظ قسم کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ سورة منافقون میں ارشاد ہے :۔ اذا جاءک المنفقون قالوا نشھد انک لرسول اللہ ، واللہ یعلم انک لرسولہ ، واللہ یشھد ان المنفقین لکذبون ۔ اتخذوا اہمانھم جنۃ (63:1-2) منافقین جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ بیشک تو اللہ کا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ بیشک تو اس کا رسول ہے لیکن خدا شہادت دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ آیت مذکورہ میں منافقین کے الفاظ میں قسم کا کوئی لفظ مذکور نہیں ہے صرف شہادت کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن مجید نے اس شہادت کو قسم قرار دیا ہے اس کا اثر یہ ہے کہ آج بھی ہم اپنی زبان میں قسم کھاتے ہیں تو کہتے ہیں ” اللہ جانتا ہے، خدا گواہ ہے ، خدا شاہد ہے۔ عربی زبان نے جب وسعت اختیار کی تو بعض حروف قسم کے ساتھ خاص ہوگئے جیسے واؤ ۔ ب ۔ ت۔ واللہ ، باللہ، تاللہ کہیں صاف لفظ قسم ہوتا ہے اور کبھی لأ کے ساتھ آتا ہے۔ جیسے لا اقسم : اور کبھی جملہ پر لام لاکر قسم کھائی جاتی ہے جیسے لعمرک (15:72) اب قسم کا استعمال دو معنی میں ہوتا ہے :۔ ایک یہ ہے کہ جب کوئی چیز بیان کی جائے اور اس کے ثبوت پر کوئی شہادت پیش کی جائے چاہے وہ شہادت ذی روح کی ہو یا غیر ذی روح کی ہو۔ بزبان حال ہو یا بزبان قال۔ دوم یہ کہ کسی چیز کی توثیق و اثبات کے لئے کسی عظیم الاشان شے یا کسی عزیز چیز کی قسم کھائی جائے۔ یہ دوسرے معانی قسم کے حقیقی معنی نہیں بلکہ مجازی ہیں جو بعد میں چل رک پیدا ہوگئے۔ جہاں جہاں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے لئے قسم کا لفظ آیا ہے وہ پہلے معنی کے لحاظ سے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نہایت کثرت سے شمس و قمر، لیل و نہار، ابروباد، کو وہ صحرا ، چرند، پرند، دریا اور سمندر غرض جا بجا۔ مظاہر قدرت کی نسبت آیت کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی نشانی کے ہیں جن چیزوں کو اکثر مواقع پر آیات کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ انہی کی جابجا قسم بھی کھائی ہے جس کے صاف معانی یہ ہیں کہ یہ تمام چیزیں اس کے وجود اور عظمت و شان پر شہادت دے رہی ہیں اور اس کی قدرت پر گواہ ہیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ قسم، یمین۔ حلف، عام لوگ ان تینوں کو ہم معنی خیال کرتے ہیں جس کی بنا پر بڑی غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے حالن کہ ان سب الفاظ کے معنی اور مفہوم بالکل جدا جدا ہیں قسم کے معنی ہیں کسی چیز کی صحت اور تصدیق کے لئے گواہی پیش کرنا۔ قرآن مجید میں جو قسمیں مذکور ہیں ان سب کے یہی معنی ہیں کہ جن چیزوں پر قسم کھائی گئی ہے وہ خدا کے وجود ہر۔ اس کی قدرت اور شان پر اور اس کی عظمت و اقتدار پر شہادت دے رہی ہیں۔ سورة فجر میں ارشاد ہے :۔ والفجر ولیال عشر والشفع والوتر والیل اذا یسر ۔ ہل فی ذلک قسم لذی حجر ۔ (89:1-5) (فجر دس راتیں جفت و طاق اور رات جب چلنے پر ہو ان سب باتوں میں صاحب عقل کیلئے قسم ہے) یعنی یہ سب چیزیں عقل مند کے نزدیک خدا کے وجود اور اس کی قدرت پر زبان حال سے گواہی دے رہی ہیں۔ یمین کے معنی ہاتھ کے ہیں یہ لفظ عموما معاہدات کی توثیق کے لئے استعمال ہوتا ہے گویا دوسرے معاہد کو ضامن دینا ہوتا ہے۔ امام راغب اصفہانی (رح) رقمطراز ہیں :۔ والیمین فی الحلف مستعار فی الید اعتبارا بما یفعلہ المعاھد و المحالف غیرہ۔ معاہدہ کرنے والا اور حلیف جو دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے یمین حلف کے معنی میں اسی فعل سے مستعار لیا گیا ہے یمین کا لفظ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے کہیں استعمال نہیں فرمایا۔ حلف کا لفظ ان دونوں لفظوں سے وسیع ہے۔ لیکن اس کے مفہوم میں ذماءت و ذلت شامل ہے۔ اور اس کا استعمال بالکل اسی طرح ہوتا ہے جس طرح آج کل عوام قسمیں کھاتے ہیں اسی وجہ سے قرآن مجید میں حلاف کے لئے مہین کا لفظ (قابل اہانت) استعمال کیا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے :۔ ولا تطع کل حلاف مہین (68:10) اور تو کہا نہ مان پر قسمیں کھانے والے بےقدر کا یہ لفظ جہاں آیا ہے منافقین کی زبان سے آیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے لئے کہیں بھی استعمال نہیں فرمایا ہے۔ (ا) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو اپنی ذات پاک کی قسمیں کھائی ہیں وہ یہ ہیں :۔ (1) قل ای وربی انہ لحق (10:53) کہ دو کہ ہاں خدا کی قسم یہ سچ ہے۔ (2) قل بلی وربی لتبعثن (64:7) کہہ دو ہاں میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ (3) فوربک لنحشرنھم والشیطین (19:68) تمہارے پروردگار کی قسم ! ہم ان کو جمع کردیں گے اور شیطانوں کو بھی۔ (4) فوربک لنسئلنھم اجمعین۔ (15:92) تمہارے پروردگار کی قسم۔ ہم ان سے ضرور باز پرس کریں گے۔ (5) فلا وربک لا یؤمنون (4:65) تمہارے پروردگار کی قسم ! یہ لوگ مومن نہیں ہوں گے۔ (ب) اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کے علاوہ اپنے فعل کی قسم کھائی ہے۔ جیسے کہ ارشاد ہے :۔ والسماء وما بنھا والارض وما طحھا ، ونفس وما سوھا (91:5-7) قسم ہے آسمان کی جس نے اسے بنایا۔ اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے پھیلایا۔ اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے اعضاء کو درست بنایا۔ (ج) اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مفعول (مخلوق) کی قسم بھی کائی ہے، جیسے :۔ (1) والنجم اذا ھوی (53:1) قسم ہے تارے کی جب غائب ہونے لگے۔ (2) والطور (52:1) قسم ہے (کوہ) طور کی۔ (3) وکتب مسطور (52:2) اور قسم ہے کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔ وغیرہ ذلک۔ مذیر تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : (1) التبیان فی اقسام القران، مصنفہ علامہ ابن قیم (رح)۔ (2) امعان فی اقسام القران، مصنفہ حمید الدین فراہی۔ (3) الاتقان فی علوم القران، حصہ دوم نوع 67 ۔ مصنفہ علامہ جلال الدین سیوطی (رح)۔ بما تبصرون : ما موصولہ، تبصرون سلہ، مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر ابصار (افعال) مصدر، تم دیکھتے ہو۔
Top