Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 6
وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى یَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَاِنْ : اور اگر اَحَدٌ : کوئی مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین اسْتَجَارَكَ : آپ سے پناہ مانگے فَاَجِرْهُ : تو اسے پناہ دیدو حَتّٰي : یہانتک کہ يَسْمَعَ : وہ سن لے كَلٰمَ اللّٰهِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر اَبْلِغْهُ : اسے پہنچا دیں مَاْمَنَهٗ : اس کی امن کی جگہ ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو ۔ اس لئے کہ یہ بیخبر لوگ ہیں۔
(9:6) استجارک۔ اس کا مادہ جور ہے الجار۔ پڑوسی۔ ہمسایہ ۔ استجار۔ اس نے پناہ طلب کی۔ استجارک۔ اس نے تجھ سے پناہ طلب کی۔ استجارۃ (افتعال) ماضی واحد مذکر غائب ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ جار پناہ دینے والا۔ مددگار۔ وانی جارلکم (8:48) اور میں تمہارا حامی مددگار ہوں۔ اور وھو یجیر ولا یجار علیہ (23:88) اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ اور معنی قرب کے اعتبار سے جار عن الطریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ جس کے معنی ہیں راستہ سے ایک طرف مائل ہونے کے۔ پھر مطلقاً حق سے عدول کرنے کے لئے اس کو اصل قرار دے کر اس سے الجور بمعنی ظلم بنایا گیا۔ قرآن حکیم میں ہے ومنھا جائر (16:9) اور بعض راستے سیدھی راہ سے ایک جانب مائل ہو رہے ہیں۔ جو روستم۔ ظلم و ستم کے معنی میں عام استعمال ہوتا ہے۔ فاجرہ۔ پس اس کو پناہ دے۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ وان احد من المشرکین استجارن فاجرہ۔ یہاں پناہ طلب کرنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی مشرک چار ماہ کی مدت گزرنے کے بعد بھی اس مطلب کے لئے پناہ مانگے کہ وہ قرآن حکیم کے پیغام کو سمجھنے اور اپنی غلط فہمیاں ۔ شک و شبہات دور کرنے کے لئے موقعہ چاہتا ہے تو اسے یہ موقعہ فراہم کرنا چاہیے۔ (اگلا جملہ حتی یسمع کلم اللہ اس معنی کی طرف اشارہ ہے) مامنہ۔ مامن۔ جائے امن۔ ظرف مکان۔ مامنہ مضاف مضاف الیہ ۔ اس کی جائے امن۔ (اس کی قوم کی بستی ہو یا کوئی اور جگہ جہاں وہ امن پاسکے) امن ۔ امانۃ۔ امان مصدر۔
Top