Ashraf-ul-Hawashi - Al-Hajj : 52
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّیْطٰنُ فِیْۤ اُمْنِیَّتِهٖ١ۚ فَیَنْسَخُ اللّٰهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْكِمُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌۙ
وَمَآ اَرْسَلْنَا : اور نہیں بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے مِنْ : سے۔ کوئی رَّسُوْلٍ : رسول وَّلَا : اور نہ نَبِيٍّ : نبی اِلَّآ : مگر اِذَا : جب تَمَنّىٰٓ : اس نے آرزو کی اَلْقَى : ڈالا الشَّيْطٰنُ : شیطان فِيْٓ : میں اُمْنِيَّتِهٖ : اس کی آرزو فَيَنْسَخُ : پس ہٹا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يُلْقِي : جو ڈالتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان ثُمَّ : پھر يُحْكِمُ اللّٰهُ : اللہ مضبوط کردیتا ہے اٰيٰتِهٖ : اپنی آیات وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور (اے پیغمبر) ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول یا نبی ایسا نہیں بھیجا مگر اس کو یہی بات پیش آئی جب اس نے کوئی خیال باندھا (یا کچھ پڑھنا شروع کیا) تو شیطان7 نے اپنی طرف سے اس کے خیال (یا تلاوت) میں کچھ ملا دیا پھر جو شیطان ملا دیتا ہے اس کو اللہ منسوخ کردیتا ہے ( میٹ دیتا ہے) اور اپنی (سچی) باتوں کو زور دیتا ہے (قائم رکھتا ہے) اور اللہ سب کو جاننے والا حکمت والا ہے
7 ۔ لفظ ” امنیۃ “ اور ” تمنی “ کے یہ دونوں معنی آتے ہیں۔ اس لئے مفسرین (رح) نے دونوں معنی ہی بیان کئے ہیں۔ پہلے معنی ” خیال باندھا “ پر شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : نبی ﷺ کو ایک حکم اللہ سے آتا ہے اس میں ہرگز تفاوت نہیں اور ایک اپنے دل کا خیال اس میں جیسے اور آدمی، بھی خیال ٹھیک پڑا کبھی نہ پڑا۔ جیسے حضرت ﷺ نے خواب دیکھا کہ مدینے سے مکہ گئے، عمرہ کیا، خیال میں آیا کہ شاید اب کے برس ( ہوگا مگر) وہ ٹھیک پڑا اگلے برس… پھر اللہ جتا دیتا ہے کہ جتنا حکم تھا اس میں تفاوت نہیں۔ (موضح) اس صورت میں اس خیال کے غلط ہونے کی بنا پر اسے شیطان کی طرف منسوب کردیا ہے۔ دوسرے معنی یعنی ” کچھ پڑھنا شروع کیا “ کے تحت بعض علمائے تفسیر نے اس کی شان نزول میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ سورة ” النجم “ تلاوت فرما رہے تھے جب آیت ” و مناۃ الثالثۃ الاخریٰ “ پر پہنچے تو بےشعوری کے عالم میں شیطان نے آپ ﷺ کی زبان پر یہ کلمات جاری کردیئے : ” تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجیٰ “ کہ یہ عالی مقام دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت متوقع ہے) اس پر کفار قریش بہت خوش ہوئے کہ آج ہمارے بتوں کی بھی تعریف ہوئی ہے اور آنحضرت ﷺ کو بہت غم لاحق ہوا۔ چناچہ سورة حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور آپ ﷺ کو تسلی دی گئی کہ پہلے انبیا ( علیہ السلام) کی وحی میں بھی شیطان اس قسم کی دخل اندازیاں کرتا رہا ہے مگر شیطان کے یہ حربے کامیاب نہیں ہوئے وغیرہ۔ مگر محققین علما (رح) نے اس قصہ کی پرزور تردید کی ہے اور اسے بےاصل قرار یا ہے۔ ابن خزیمہ (رح) نے تو اس قصہ کو زنادقہ (ملحدین) کی سازش قرار دیا ہے تاکہ دین میں شک و شبہات پیدا کرسکیں۔ یہی بات محمد بن اسحاق صاحب سیرۃ اور ابو منور ماتریدی (رح) نے لکھی ہے گو حافظ ابن حجر اور ان کے بعد ابراہیم کو رانی نے اسنادی حیثیت سے اسے قابل اعتبار قرار دیا ہے اور پھر معنوی حیثیت سے جو اعتراضات اس پر وارد ہوتے ہیں ان کے جوابات میں بہت طویل بحث کی ہے مگر بہتر رائے ابن خزیمہ وغیرہ کی ہے کیونکہ اگر اسے تسلیم کرلیا جائے تو وحی سے اعتبار اٹھ جاتا ہے حالانکہ وحی کی تبلیغ میں انبیا ( علیہ السلام) کا معصوم اور محفوظ ہونا متفق علیہ امر ہے اور جیسا کہ قاضی عیاض نے ” الشفا “ میں تصریح کی ہے اور امت کا اتفاق ہے کہ وہ قصداً یا سہواً اس میں غلطی نہیں کرسکتے۔ (مزید دیکھئے سورة النجم :20 مختصر از کبیر و روح) لہٰذا ان دوسرے معنی کی رو سے آیت کا صحیح مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اس وحی کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شب ہے ڈالنے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ ” متشابہات “ میں اہل زیغ (کج ذہن) فتنہ پردازی اور ملمع سازی کی کوشش کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ دوسری محکم آیات نازل فرما کر ان کی ” تاویلات فائدہ “ کا سدباب کردیتا ہے واللہ اعلم۔
Top