Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Hajj : 52
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّیْطٰنُ فِیْۤ اُمْنِیَّتِهٖ١ۚ فَیَنْسَخُ اللّٰهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْكِمُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌۙ
وَمَآ اَرْسَلْنَا : اور نہیں بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے مِنْ : سے۔ کوئی رَّسُوْلٍ : رسول وَّلَا : اور نہ نَبِيٍّ : نبی اِلَّآ : مگر اِذَا : جب تَمَنّىٰٓ : اس نے آرزو کی اَلْقَى : ڈالا الشَّيْطٰنُ : شیطان فِيْٓ : میں اُمْنِيَّتِهٖ : اس کی آرزو فَيَنْسَخُ : پس ہٹا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يُلْقِي : جو ڈالتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان ثُمَّ : پھر يُحْكِمُ اللّٰهُ : اللہ مضبوط کردیتا ہے اٰيٰتِهٖ : اپنی آیات وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر (اس کا یہ حال تھا کہ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈالتا ہے جو وسوسہ شیطان ڈالتا خدا اس کو دور کردیتا ہے۔ پھر خدا اپنی آیتوں کو مضبوط کردیتا ہے اور خدا علم والا اور حکمت والا ہے
(52) بلکہ ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کو یہ واقعہ پیش نہ آیا ہو کہ جب اس رسول اکرم ﷺ نے احکام خداوندی میں سے کچھ پڑھا، یا اس نبی نے کچھ بیان کیا تو شیطان نے اس رسول کے پڑھنے اور اس نبی کے بیان کرنے میں کچھ شبہ ڈال دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ان شیطانی شبہات کو اپنی نبی کی زبانی بیان کروا دیا تاکہ ان پر کوئی عمل نہ کرے، پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو بیان کردیتا ہے تاکہ ان پر عمل کیا جائے اور شیطان جو شبہات ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو جاننے والا اور نیست ونابود کردینے میں حکمت والا ہے۔ شان نزول : (آیت) ”۔ ومآ ارسلنا من قبلک“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ اور ابن جریر ؒ اور ابن منذر ؒ نے سند صحیح کے ساتھ سعید بن جبیر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں سورة نجم کی تلاوت فرمائی جس وقت آپ (آیت) ”افرایتم اللات والعزی ومناۃ الثالثۃ الاخری“۔ (الخ) پر پہنچے تو شیطان نے آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلوا دیے ”۔ تلک الغرانیق العلی، وان شفاعتھن لترتجی“۔ (الخ) (کہ ان بڑے بڑے بتوں کی سفارش قبول کی جائے گی) مشرکین کہنے لگے آج سے پہلے ہمارے بتوں کا اچھائی کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا غرض کہ آپ نے سورت کے اختتام پر سجدہ کیا اور تمام لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ اور بزار ؒ اور ابن مردویہ ؒ نے دوسرے طریقے سے سعید بن جبیر ؒ کے ذریعے حضرت ابن عباس ؓ سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ روایت نقل کی ہے اور اس سند کے علاوہ اور دوسری سند سے یہ روایت متصلا مروی نہیں ہے اور صرف امیہ بن خالد اس روایت کو متصلا بیان کر رہے ہیں، باقی وہ ثقہ اور مشہور آدمی ہیں اور نیز اسی روایت کو امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے ایسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے جس میں واقدی ؒ ہے اور ابن مردویہ ؒ نے کلبی ؒ، ابو صالح ؒ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے اور ابن جریر ؒ نے عوفی کے ذریعے سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ اور ابن اسحاق ؒ نے اسی روایت کو سیرت میں محمد بن کعب ؒ اور موسیٰ بن عقبہ ؒ کے ذریعے سے ابن شہاب ؒ سے اور ابن جریر ؒ نے محمد بن کعب ؒ اور محمد بن قیس ؒ سے اور ابن ابی حاتم ؒ نے سدی ؒ سے روایت کیا ہے اور یہ سب روایات قریب قریب ایک ہی مضمون کی ہیں باقی یہ تمام روایات سعید بن جبیر ؓ کی سند کے علاوہ جو سب سے پہلے روایت کی ہے ضعیف ہیں یا منقطع، حافظ بن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ روایت کے کثرت طرق اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ اس واقعہ کی کوئی اصلیت موجود ہے اور پھر جب کہ دو مرسل صحیح طریق بھی اس روایت کے موجود ہیں جنھیں ابن جریر ؒ نے روایت کیا ہے ایک طریق تو ان میں سے زہری عن ابی بکر بن عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام کا طریق ہے اور دوسرا داؤد بن ہند عن ابی العالیہ کا طریق ہے اور شیخ ابن عربی اور قاضی عیاض کے اس قول کا کہ یہ سب روایات باطل ہیں، کی کوئی اصلیت نہیں اور کچھ اعتبار نہیں۔ (یہ واقعہ امام بیہقی ؒ، قاضی عیاض ؒ محمد بن اسحاق ؒ، شیخ ابو منصور، ماتریدی ؒ اور ابن عربی ؒ کی تصریح کے مطابق غیر ثابت، بےسن، موضوع اور گھڑا ہوا ہے، اور اس کی کوئی اصلیت نہیں، واللہ اعلم) (مترجم)
Top