Ashraf-ul-Hawashi - Ash-Shu'araa : 42
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں (صرف) وَلِيُّكُمُ : تمہارا رفیق اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُقِيْمُوْنَ : قائم کرتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُؤْتُوْنَ : اور دیتے ہیں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَهُمْ : اور وہ رٰكِعُوْنَ : رکوع کرنیوالے
(مسلمانو یہود اور نصاری تمہارے دوست نہیں ہوسکتے) تمہارے دوست اللہ اور رسول اس کا اور ایمان والے ہیں جو درستی سے نماز کو ادا کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور وہ جھکے رہتے ہیں5
5 اوپر کی آیات میں کفار سے موالا ۃ کو ممنوع قرار دیا اب اس آیت میں انما کلمہ حصر کے ساتھ مومنین سے موالاۃ کا حکم فرمایا یعنی یہود کو مددگار اور ادوست نہ بنا و بلکہ صرف مومنین کو اپنا دوست ارمدد گار سمجھو۔ (کبیر، ابن کثیر) یہاں وھم رالعون کے معنی ہیں فروتنی اور عاجزی کرنے والے۔ چنانطہ قرآن میں ودسرے مقام پر ہے وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ المومنین : 60) کہ وہ لوگ جو صدقہ و خیرات اس حال میں کرتے ہیں کہ ان کے دل کانپ رہے ہوتے ہیں (کبیر۔ ثنائی) بعض علمانے وھم راکعون کو یو تون الزکوٰۃ کے فاعل سے حال قرار دے ت کر یہ ترجمہ کی ہے کہ وہ رکوع کو حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور پھر بعض روایات سے ثابت کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے رکوع کی حالت میں انگو ٹھی صدقہ کی تھی اس پر ان کی تعریف میں یہ آیت نازل ہوئی مگر یہ روایات بہت ضعیف اور کمزور ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے ان روایات پر سخت تنقید کی ہے اور ان کے نے اصل قرار دیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ان روایات کی رو سے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرنا زکوٰۃ دینے کی افضل ترین صورت ہے مگر آج تک کسی عالم نے نہ فتوی نہیں دیا۔ (ابن کثیر المنار ) پس صحیح یہ ہے کہ آیت عامومنین کے حق میں نازل ہوئی ہے اور حضرت عبادہ ؓ بن صامت اور ان کے رقا ؓ اس آیت کے اولین مصداق ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہود کی مولاۃ سے ب رات کا اعلان کردیا تھا امام ابو جعفر محمد بن علی بن حسین ؓ سے پوچھا گیا کہ وہ ولیکم سے مراد حضرت علی ؓ ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی ؓ بھی من جملہ مومنین کے ہیں یعنی یہ آیت سب مومنین کے حق میں ہے باقی رہی یہ بات کہ یہاں اقامتہ الصلوٰۃ الخ میں جو صفات مذکورہ ہیں ان سے کیا مقصود ہے تو ہم کہتے ہیں کہ مذکورہ صفات سے منافقین پر طنز مقصود ہے جو ان صفات سے عاری تھے۔ (کبیر) ج
Top