Tadabbur-e-Quran - Maryam : 23
وَ كَذٰلِكَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَاۤ١ۙ اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح مَآ : نہیں اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل فِيْ قَرْيَةٍ : کسی بستی میں مِّنْ نَّذِيْرٍ : کوئی ڈرانے والا اِلَّا : مگر قَالَ : کہا مُتْرَفُوْهَآ : اس کے خوش حال لوگوں نے ۙاِنَّا وَجَدْنَآ : بیشک ہم نے پایا ہم نے اٰبَآءَنَا : اپنے آباؤ اجداد کو عَلٰٓي اُمَّةٍ : ایک طریقے پر وَّاِنَّا عَلٰٓي : اور بیشک ہم، پر اٰثٰرِهِمْ : ان کے نقش قدم (پر) مُّقْتَدُوْنَ : پیروی کرنے والے ہیں
اور اسی طرح ہم نے جس بستی میں بھی تم سے پہلے کوئی منذر بھیجا تو اس کے خوش حالوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے۔
یہ امر ملحوظ رہے کہ لفظ امۃ کی تنکیر اس کی عظمت کے اظہار کے لئے ہے۔ وکذلک ما ارسلنا من قبلک فی قریۃ من نذیر الاقال مسترفوھآ انا وجدنآ ابآء نا علی امۃ وانا علی اثرھم مقتدون، قل اولو جئتکم باھدی مما وجدتم علیہ ابآء کم ط قالوا انا بما آ ارسلتم بہ کفرون (24-23) ہر دور کے مکذبین کا طریقہ ایک ہی رہا ہے فرمایا کہ یہ لوگ جس طرح اپنے دین کے معاملے میں اندھے مقلد ہیں اسی طرح اپنی دلیل میں بھی پچھلے انبیاء کے مکذبین کے مقلد ہیں۔ تم سے پہلے جو منذر بھی کسی بستی میں ہم نے بھیجا اس کے انذار اور اس کی دعوت اصلاح کا جواب قوم کے مستکبرین نے یہی دیا کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایک خاص طریقہ پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم کی بیروی پر جمے رہیں گے۔ رسول نے جب ان سے یہ سوال کیا کہ اگر میں تمہارے باپ دادا کے طریقہ سے بہتر طریقہ تمہارے پاس لے کر آیا ہوں جب بھی تم اپنے باپ دادا کی طریقہ ہی پر جمے رہوہ گے ! اس کے جواب میں انہوں نے جھلا کر کہا کہ ہم تو اس سارے ہی کے منر ہیں جو دے کر تم بھیجے گئے ہو ! انا بمآ ارسلتم بہ کفرون سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ جواب انہوں نے جھلا کر اور آپے سے باہر ہو کردیا۔ اس لئے کہ جواب اصل سوال سے کئی قدم آگے ہے۔ رسول کا سوال تو صرف یہ تھا کہ اگر میرا طریقہ جس کی میں دعوت دے رہا ہوں تمہارے باپ دادا کے طریقہ سے بہتر ہوا تو کیا اس صورت میں بھیتم اپنی اسی ہٹ پر قائم رہو گے۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری ہر بات کے منکر ہیں۔ یعنی مسئلہ اھدی اور غیر ھدی کے امتیاز کا نہیں ہے بلکہ ہم تمہاری کوئی بات سرے سے سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ دوسری یہ کہ کسی شے کے اھدی، اور غیر اھدی میں امتیاز کی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ودیعت فرمائی ہے بشرطیکہ انسان کے پاس گوش حقیقت نیوش ہو۔ وہ مغرور، ضدی اور ہٹ دھرم نہ ہو۔
Top