Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 23
وَ كَذٰلِكَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَاۤ١ۙ اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح مَآ : نہیں اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل فِيْ قَرْيَةٍ : کسی بستی میں مِّنْ نَّذِيْرٍ : کوئی ڈرانے والا اِلَّا : مگر قَالَ : کہا مُتْرَفُوْهَآ : اس کے خوش حال لوگوں نے ۙاِنَّا وَجَدْنَآ : بیشک ہم نے پایا ہم نے اٰبَآءَنَا : اپنے آباؤ اجداد کو عَلٰٓي اُمَّةٍ : ایک طریقے پر وَّاِنَّا عَلٰٓي : اور بیشک ہم، پر اٰثٰرِهِمْ : ان کے نقش قدم (پر) مُّقْتَدُوْنَ : پیروی کرنے والے ہیں
اور اسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی نذیر بھیجا اس کے خوشحال لوگوں نے کہا ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انھیں کے نقش قدم کی پیروی کریں گے
وَکَذٰلِکَ مَـآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلاَّ قَالَ مُتْرَفُوْھَـآ لا اِنَّا وَجَدْنَـآ اٰبَـآئَ نَا عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰ ثٰرِھِمْ مُّقْتَدُوْنَ ۔ (الزخرف : 23) (اور اسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی نذیر بھیجا اس کے خوشحال لوگوں نے کہا ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انھیں کے نقش قدم کی پیروی کریں گے۔ ) بگاڑ کی تاریخ ہر دور میں یکساں رہی بگڑی ہوئی قوموں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور کے انسان کے بگاڑ اور اس کے فکری الجھائو کی صورتیں ایک جیسی رہی ہیں، کیونکہ انسان کی فطرت بنیادی طور پر ایک ہے اس کے موثر اور متأثر ہونے کے ذرائع بھی ملتے جلتے ہیں۔ وہ ایک ہی جیسے عوامل سے بگڑتا اور ایک ہی جیسے اسباب سے سنورتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں جو صدیوں پہلے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوچکی ہیں ان کے بگاڑ کی نوعیت بھی یکساں تھی اور اس کے دلائل بھی ملتے جلتے تھے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ کو جس قوم سے واسطہ ہے اس کے فکری اور عملی بگاڑ اور سابقہ امتوں کی گمراہیوں میں بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ اور اس پر طرہ یہ ہے کہ وہ اپنے بگاڑ کی دلیل کے طور پر قریش ہی کی طرح اپنے باپ دادا کی تقلید کو ہی اپنی سب سے بڑی دلیل سمجھتے تھے۔ اور یہ گمراہی اس قدر عام تھی کہ جس شہر اور جس قریہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کو اصلاح کے لیے بھیجا تو وہاں کے رہنے والوں نے دلیل کے طور پر یہی بات کہی کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے، یعنی وہ زندگی کا ایک ڈھب اور ایک طریقہ ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں ہم انہی کے نقوش قدم کی پیروی ہی کو اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں، اس لیے ہم اس سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ یعنی جو بات آج قریش کے لیے سب سے بڑا سہارا ہے وہی بات ان کے لیے بھی اپنے اندر سب سے زیادہ وزن رکھتی تھی۔ اس آیت کریمہ میں مزید ایک خاص بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ کہ باپ دادا کی تقلید کو اپنے مؤقف کی دلیل کے طور پر پیش کرنے والے عوام نہیں تھے بلکہ وہ لوگ تھے جن کو مترفین کہا گیا ہے۔ اس سے مراد ہر قوم کا طبقہ ٔ امراء بھی ہے اور وہ لوگ بھی جو کسی طرح اپنی قوم کو لیڈ کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے حوالے سے، تعلیمی اداروں کے ذریعے، اسمبلیوں میں پہنچ کر یا شعر و ادب سے کام لے کر۔ یہ تمام لوگ مترفین میں شامل ہیں۔ یہ بالعموم ایک جیسی خواہشات کے مارے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ حُبِ دنیا اور حُبِ جاہ ان کے مشترکہ امراض ہیں۔ اور یہ اپنے خیالاتِ باطلہ اور خواہشاتِ خبیثہ کو چھپانے کے لیے آبائواجداد کا نام لیتے ہیں۔ اور پھر آبائواجداد سے مراد بھی عوام کے آبائواجداد نہیں بلکہ ان کے اپنے ہوتے ہیں۔ اور اس طرح سے وہ پیرپا تسمہ بن کر لوگوں کی گردنوں پر سوار رہتے ہیں۔
Top