Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 113
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰى شَیْءٍ١۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰى شَیْءٍ١ۙ وَّ هُمْ یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ١ۚ فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَقَالَتِ : اور کہا الْيَهُوْدُ : یہود لَيْسَتِ : نہیں النَّصَارٰى : نصاری عَلٰى : پر شَیْءٍ : کسی چیز وَقَالَتِ : اور کہا النَّصَارٰى : نصاری لَیْسَتِ : نہیں الْيَهُوْدُ : یہود عَلٰى : پر شَیْءٍ : کسی چیز وَهُمْ : حالانکہ وہ يَتْلُوْنَ : پڑھتے ہیں الْكِتَابَ : کتاب کَذٰلِکَ : اسی طرح قَالَ : کہا الَّذِیْنَ : جو لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے مِثْلَ : جیسی قَوْلِهِمْ : ان کی بات فَاللّٰہُ : سو اللہ يَحْكُمُ : فیصلہ کرے گا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ : دن الْقِيَامَةِ : قیامت فِیْمَا : جس میں کَانُوْا : وہ تھے فِیْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
اور یہودکہتے ہیں نصاریٰ کے مذہب کی کوئی بنیاد نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں یہود کے مذہب کی کوئی بنیاد نہیں اور حالانکہ یہ (سب) لوگ (آسمانی) کتاب بھی پڑھتے ہیں یہی بات جاہل لوگ بھی انہی کی طرح کہتے ہیں تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں اللہ قیامت کے روز ان کے درمیان فیصلہ فرمادیں گے
آیات 113- 121 اسرارو معارف اب ان کا حال دیکھئے کہ یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ کا مذہب کوئی بنیاد ہی نہیں رکھتا انجیل کے کتاب اللہ ہونے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے نبی ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ ان کا دیکھا دیکھی نصاریٰ نے دین موسوی اور تورات کا انکار کردیا اور لگے کہنے یہ بےبنیاد نظریات ہیں حالانکہ دونوں اہل کتاب ہیں اور آسمانی کتب بنیادی عقائد کی یکساں تبلیغ کرتی ہیں اور توحید و رسالت ، آخرت حشر ونشر کے حقائق ایک سے بیان کرتی اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں تو اس طرح ان دونوں گروہوں نے گویا خود اپنی کتاب کا بھی انکار کردیا۔ اور انہی کی طرح جہلاء اور مشرکین کو بھی کتب الٰہیہ کے انکار کا موقع مل گیا اور انہوں نے دونوں کا انکار کردیا۔ اپنی بڑ ہانکنے لگے کہ جی اصل مذہب تو یہی بت پرستی ہے۔ بعثت خاتم النبیین ﷺ نے عقلی اور نقلی دلائل سے تو ہر طرح حق و باطل میں تمیز کردی ہے اور اس کے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ نئی کتاب۔ اب تو ایک ہی بات ہے کہ روز قیامت اللہ جل شانہ عملاً ان کے درمیان فیصلہ فرمادیں گے اور ان کے اختلافات حل ہوجائیں گے دنیا میں یہ حق پرستی کے جھوٹے مدعی یہ تک نہیں سوچتے کہ انہوں نے اللہ کے گھروں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ومن اظلم ممن منع مسجد اللہ………………ان اللہ واسع علیم۔ ان سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا کہ بت پرستوں نے خودنبی کریم ﷺ پر بیت اللہ کا داخلہ روک دیا۔ جب تک ان کا بس چلا وہ رکاوٹ بنے رہے ان یہود ونصاریٰ کے اسلاف کو دیکھو جس کو دوسری پر دائو چلا ، چڑھ دوڑا اور معبدو مساجد حتیٰ کہ بیت المقدس تک کو برباد کرنے اور اس کی توہین کرنے سے باز نہ رہے اور اب جبکہ اسلام دین حق ہے نہ صرف مساجد ان کے سجدوں سے خالی ہیں بلکہ یہ طرح طرح کے اعتراضات اور بےجا شبہات پیدا کرکے ان کو بھی راہ سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں جو مسجدوں کی آبادی کا سبب بنے ہوئے ہیں اور مساجد کی عظمت خود اس بات کی مقتضی ہے کہ جو شخص ان میں داخل ہو وہ اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر جانے اور اس عظمت پر ہیبت الٰہیہ طاری ہو۔ وہ لرزاں وترساں ادب واحترام سے حاضر ہو۔ جہاں تک مساجد کے ادب کا تعلق ہے تو دنیا کی تمام مساجد اس لحاظ سے مساوی ہیں اور کسی بھی مسجد کی بےحرمتی ایسا ہی ظلم ہے ، جیسے بیت اللہ یا مسجد نبوی ﷺ یا بیت المقدس کی اگرچہ ان تینوں مساجد کی عظمت اور خاص بزرگی اپنی جگہ مسلم۔ بیت اللہ میں ایک نماز ایک لاکھ نماز کا ثواب پاتی ہے اور مسجد نبوی اور بیت المقدس میں پچاس ہزار کا۔ نیز مسجد کی ویرانی کے یا وہاں پر نماز وذکر سے روکنے کے جتنے بھی طریقے ہیں سب ناجائز اور حرام ہیں جن میں سے کسی کو منع کرنا تو ایک ظاہر بات ہے۔ کبھی وہاں شور وغل کرکے یا پڑوس میں زور زور سے ریڈیو بجا کر لوگوں کی نمازوں میں خلل ڈالنا بلکہ اوقات نماز میں یا جب لوگ نوافل یا ذکر وغیرہ میں لگے ہوں تو بلند آواز میں تلاوت کرنا یا ذکر جہر بھی ممنوع ہے ہاں اگر عام نمازی نہ ہوں تو اور بات ہے۔ اسی طرح مسجد کی ویرانی کی جس قدر صورتیں ہیں سب ممنوع ہے صرف یہ کہ انہیں ڈھایا نہ جائے بلکہ کوئی ایسی صورت یا ایسا جھگڑا جو نمازیوں کو وہاں آنے سے روک دے یہی حکم رکھے گا نیز ان لوگوں کے لئے یہاں بہت بڑی تنبیہہ ہے جنہوں نے مساجد میں حاضری ہی چھوڑ دی ہے اگرچہ دوسرے لوگوں کو روک نہ رہے ہوں تو بھی خود حاضر نہ ہونا ویرانی ہی کا سبب ہے اور اللہ نے یہاں کفار کے اس دعویٰ کا جواب دیا ہے وہ اپنے جنتی ہونے پر قائم کرتے تھے کہ تمہیں مساجد میں تو قدم رکھنے نہیں دیتا جنت میں ضرور تمہاری ہی دعوت کا منتظر ہوگا ؟ یہاں حال یہ ہے کہ کسی سے نما زکا کہو تو کہتا ہے جی ! اللہ اپنے فضل سے ہی بخشے گا ہم نے نمازی بھی دیکھ رکھے ہیں ، بھئی ! نمازی اور بےنمازی میں ایک فرق تو ظاہر ہے کہ وہ پانچ وقت اللہ کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتا ہے اور دوسرے کو اللہ اپنے در پر نہیں آنے دیتا تو یہی اللہ کا فضل ہے کہ جب کسی پر مہربان ہوتا ہے تو توفیق اطاعت ارزاں فرما دیتا ہے ورنہ نافرمان ایک تو خود اطاعت نہ کرکے ظلم کررہا ہے دوسرے وہ کسی نہ کسی درجے میں مساجد کی ویرانی کا سبب بھی بن رہا ہے ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں ذلت ورسوائی اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے دنیا میں اگر اسے مال و دولت یا اولاد ملی بھی تو اس کی پریشانیاں بڑھائے گی اور اس کے لئے یہ بھی مصیبت بن کر رہے گی اور نہ ملی بھی تو اس طرح اخروی عذاب میں گرفتار ہوگا۔ وللہ المشرق…………واللہ واسع علیم۔ یہ جو انہیں بات مل گئی ہے کہ جی پہلے تو مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اور کعبے کی طرف کیوں پھرگئے کہ ابتدائً قبلہ بیت المقدس ہی تھا تقریباً سولہ ماہ مدنی زندگی میں ایسا ہی رہا حتیٰ کہ اللہ نے استقبال کعبہ کا حکم نازل فرمایا تو یہودونصاریٰ نے اس بات کو بہت ہوا دی کہ جی اگر نبی ہوتے تو شروع سے ایک قبلہ کیوں نہ مقرر کرلیتے۔ اب ان کی وہ نمازیں کیا ہوئیں ، جو بیت المقدس کو رخ کرکے ادا کیں۔ تو اللہ نے فرمایا یہ تو کمال اطاعت ہے کہ مسلمان نہ تو بیت المقدس کے پجاری ہیں نہ کعبہ کے۔ بلکہ یہ تو اللہ کی اطاعت گزار ہیں۔ بیت المقدس قبلہ مقرر فرمایا تو ادھر سجدہ ریز ، اور کعبۃ اللہ کی طرف حکم دیا تو ادھر حاضر۔ اور خود اللہ تعالیٰ نے تمام سمتوں کو محیط ہے وہ کسی خاص سمت یا مکان میں مقید نہیں بلکہ ہر سمت اور ہر مقام پر اس کا ظہور یکساں ہے۔ اور ہر جگہ موجود۔ ہاں وہ علیم ہے اور کئی حکمتوں کی وجہ سے کسی خاص سمت کی تعیین کی جاتی ہے مثلاً ایک سمت کی تعیین نے پورے عالم اسلام میں ایک گونہ تنظیم پیدا فرمادی۔ برخلاف اس کے کہ ایک جگہ چند نمازی جمع ہوتے تو ہر ایک کا منہ دوسری طرف ہوتا اور ایک افتراق کی شکل سامنے آتی اور اسی طرح کی اور بیشمار حکمتیں جنہیں اللہ بہتر جانتا ہے ورنہ تو اگر نمازی کی سمت معلوم نہ ہو اور تاریکی وغیرہ سے سمجھ نہ آتی ہو کوئی بتلانے والا بھی نہ ہو تو اپنے اندازے سے نماز پڑھ لے وہی سمت قبلہ ہوگی خواہ بعد میں پتہ بھی چل جئاے کہ غلط سمت کو پڑھ لی پھر بھی نماز ادا ہوجائے گی۔ اعادہ کی ضرورت نہیں اسی طرح فقہ میں جزئیات دیکھی جاسکتی ہیں جن سے استقبال قبلہ کے حکم شرعی کی حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے۔ وقالوا ات خدا للہ ولدا………………کن فیکون۔ ذرا ان کی دیانتداری ملاحظہ ہو کہ جن کتابوں کو یہ مانتے ہیں ان پر کس طرح اپنے ایجاد کردہ عقائد مسلط کر رکھے ہیں جیسے ہر کتاب نے تنزیہ باری بیان کیا ہے مگر یہ دونوں گروہ مدعی ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے یہود نے کہا عزیر ابن اللہ اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دیا حالانکہ اللہ تمام احتیاجات سے بالاتر ہے اور کوئی اس کا کسی طرح ہمسر نہیں جبکہ صاحب اولاد خود بہت سی احتیاجات میں مبتلا ہوتا ہے اور اولاد ایک ایسا سلسلہ ہے جو بیشمار قسم کے افکار میں جکڑا لیتا ہے جس کے لئے بیوی کی ضرورت ، رشتہ داروں کی ضرورت ، خانہ داری کی محتاجی اور خود بقائے نسل کی احتیاج موجود ہے حالانکہ اس کی ذات ان سے بالا تر ہے۔ پھر اولاد والد کے اوصاف لے کر آتی ہے انسان کا بچہ انسان اور حیوان کا بچہ حیوان بلکہ بھینس کا بچہ گائے نہیں ہوگا۔ اور نہ گائے بھینس جنے گی حتیٰ کہ درخت کا ننھا پودا اپنی قسم کے بڑے درخت کی خصوصیات ، پتے ، رنگ اور ذائقہ وغیرہ رکھتا ہوگا تو لا محالہ اگر اللہ کی اولاد ہوتی تو خدائی اوصاف رکھتی۔ پھر وہ پاک اور لاشریک نہ رہتا۔ یہ تو کئی خدا بن جاتے۔ چھوٹے سہی اختیارات میں کم سہی مگر ہوتے تو خدا ہی۔ حالانکہ ان کی کتابوں نے بھی اس کی تقدیس بیان کی ہے بلکہ جملہ کتب نے اعلان کیا ہے کہ اس کی ذات کے سوا جو کچھ ہے وہ اسی کی ملکیت ہے اور سب کچھ اور ہر کوئی اور ہر شے اس کے آگے دست بستہ حاضر ہے کسی کو رکھے یا مٹادے کسی میں مجال دم زون نہیں ہر شے اس نے نئے سرے سے پیدا کی ہے۔ وہ تھا ، اور کچھ نہیں تھا۔ ارض وسماء اس نے پیدا فرمائے۔ اس کی قدرت کامل اس کا اختیار غیر محدود ۔ اور اس کا حکم سب پر جاری ہے۔ اس کی ذات قدیم ، ازل اور ابدی ہے اسی طرح اس کی صفات قدیم ، ازلی اور ابدی ہیں اس کا علم جامع حضوری ہے اور زمانوں کی قید سے بالاتر۔ ماضی ہو یا مستقبل اس کے سامنے سب حاضر بلکہ وہ ایسا قادر ہے جب کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو وہ اسی کام کو کہتا ہے ہوجا ! اور وہ ہوجاتا ہے یعنی سب کچھ اس کے سامنے اس کے علم میں موجود اور حاضر ہے جو ہوچکا ہے جو ہورہا ہے جو ہونے والا ہے مخلوق کے لئے غیر موجود ہے مگر اس کے سامنے حاضر۔ وہ اسی کو حکم دیتا ہے کہ ” ہوجا “ اور وہ ہوجاتا ہے۔ عقیدہ بداء کی تردید : یہاں عقیدہ بداء کی تردید ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے خدا کی طرف ایسا بہتان منسوب کیا وہ ان متذکرہ فرقوں سے کسی طرح کم نہ رہے اور انہوں نے یہ جانا کہ معاذ اللہ ، اللہ کا حکم نامکمل ہے جب کچھ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ سامنے ہوتا ہے تب اللہ کو پتہ چلتا ہے کہ کیا ہوگیا۔ تو کیا کسی ایسی ہستی کو احتیاج سے پاک کہا جاسکتا ہے جو کرنا تو درکنار ، جاننے میں بھی محتاج ہو۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ یہ اس قدر گمراہی صرف اس لئے اپنانا پڑی کہ اس کے بغیر عظمت صحابہ ؓ کو تسلیم نہ کرنے کی کوئی راہ نہ تھی۔ تورات وانجیل میں ان کی تعریف کی گئی پھر مسلسل تئیس برس قرآن کریم نازل ہوتا رہا جس نے ہر پہلو سے ان کو مثال بندے قرار دیا اور رضائے الٰہی کے مظہر اور واجب الاتباع بتایا تو یار لوگوں کو ان چیزوں سے انکار کرنے کے لئے عقیدہ بداء کی ضرورت پڑی کہ پہلے تو ایسے ہی تھے مگر جب حضور نبی کریم ﷺ نے سفر آخرت فرمایا تو یہ بدل گئے اب وحی تو باقی نہیں اور اللہ کو بداء ہوگیا تھا ان کے اس وقت کے احوال سے آہ بیچارہ اللہ۔ ایسے بےبس اور مجبور کو اللہ بنانے کی کیا ضرورت ؟ تو یہ سب کیا ہے اقرار کے پردے میں کتاب اللہ کا انکار ہے ورنہ ان کی پہلی کتابوں نے اللہ کے محتاج ہونے کا انکار کیا ہے جو بنیاد ہے ایمان کی ، اس کے ساتھ ذرا ان کا سلوک دیکھئے یہ حال تو اہل کتاب کا ہے۔ رہے جہلا تو وہ ان سے بھی آگے نکل گئے۔ وقال الذین لا یعلمون………………لقوم یوقنون۔ وہ یوں کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا ہم پر کوئی نشانی اور دلیل نازل کیوں نہیں فرماتا۔ یہ جاہل اتنا نہیں جانتے کہ اگر دنیا میں سب انسانوں کو مکالمہ باری نصیب ہو تو میاں ! امتحان کیسا ؟ اور کہاں کا ابتلاء پھر سب اسی کے ہو رہیں اور کوئی اسکے در سے اٹھے ہی نہیں۔ دنیا میں یہ دولت صرف انبیاء کو نصیب ہوتی ہے اور وہبی طور پر ملتی ہے کہ کوئی انسان عبادت و ریاضت سے اس درجہ کو پا ہی نہیں سکتا۔ اور آخرت میں جس قدر انعامات اور نعمتیں رکھی ہیں ان سب سے اعلیٰ دیدار باری اور کلام باری ہی تو ہے۔ ارے بےوقوفو ! جنت تو جنت ہے میدان حشر میں عظمت باری دیکھ کر ہر کافر پکار اٹھے گا۔ اے اللہ ! ایک بار زندگی دنیا کو لوٹا دے اور پھر دیکھنا ہم کس قدر اطاعت کرتے ہیں۔ اگر یہ سب چیزیں ہر ایک پہ اب یہیں ظاہر ہوجائے تو پھر امتحان اور آزمائش چہ معنی دارد ، یہ اپنے کو انبیاء کا ہم پلہ جانتے ہیں ایسے ہی جاہلانہ اقوال ان سے پہلے کفار بھی کہا کرتے تھے اور عجب بات ہے کہ آج بھی جن اعتراضات کو جدید سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے ان کی چھان پھٹک کی جائے تو بات وہی ملتی ہے جو صدیوں سے کفار دہراتے چلے آرہے ہیں ان کی وجہ تشابھت قلوبھم ہے ان کے دلوں نے کفر اور بدکاری کی وجہ سے پہلے کافروں سے مشابہت پیدا کرلی ہے اسی لئے انہی جیسی باتیں بھی ان کے دلوں سے نکلتی ہیں۔ جب کوئی بدی کی راہ اپناتا ہے تو اسے شیطان سے ایک تعلق پیدا ہوتا ہے۔ نسبت کے کرشمے : پھر اس کو جوں جوں بڑھاتا ہے تو نوبت کفر تک پہنچتی ہے پھر کفر کے مدارج ہیں تو جس طرح کی نسبت کفر یہ پاتا ہے اس طرح کا جو کافر پہلے گزرا ہے اس جیسی باتیں دہراتا ہے اور ایک راہ یہ بھی ہے کہ جس طرح ہر مبارک کلمہ پر ایک خاص برکت اور رحمت متوجہ ہوتی ہے اسی طرح بڑے کافروں کے کفر یہ الفاظ پر ایک خاص درجہ کا غضب بھی بھڑکتا ہے تو شیطان کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کفار کے منہ سے وہ الفاظ کہلوائے جو بڑے بڑے کافروں نے کہے تھے تاکہ اس درجہ کے غضب الٰہی کا شکار ہوں۔ اسی طرح جو شخص نیکی کی طرف گامزن ہوتا ہے اسے نیک لوگوں سے ایک خصوصی تعلق نصیب ہوتا ہے جس کے درجے بھی مختلف ہیں فنانی الشیخ ، فنانی الرسول اور فنانی اللہ اسی راہ کی منازل میں جنہیں تمافی الرسول نصیب ہوتا ہے ان کے قلب کا ایک ربط اللہ رسول اللہ ﷺ سے پیدا ہوجاتا ہے اور ان کے منہ سے وہ باتیں جاری ہوتی ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمائی تھیں۔ وہ مولانا ظفر علی خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس شعر کا مصداق بنتے ہیں۔ انہی کا مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات ان کی انہی کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی میرا فقط ہاتھ چل رہا ہے انہی کا مطلب نکل رہا ہے انہی کا مضمون ، انہی کا کا غد ، قلم انہی کا ، دوات ان کی یہ اس لئے کہ تشابھت قلوبھم ان کے دل مشابہت پیدا کرلیتے ہیں۔ کفار کے اعتراضات اس وجہ سے نہیں کہ حق بیان کرنے میں کوئی کسر ہے بلکہ اس کی وجہ پہلے کفار سے ان کی باطنی نسبت ہے ورنہ تو ہم نے قدبین الایات ظاہر و باہر دلائل ارشاد فرمائے ہیں اور رسالت محمدیہ ﷺ اور حقانیت کتاب اللہ پر نہایت واضح دلیلیں موجود ہیں۔ مگر یہ ان لوگوں کو مفید ہے جو یقین و اطمینان کے طالب ہیں۔ معترضین کو کیا حاصل کچھ حاصل کرنے کے لئے طالب ہونا ضروری۔ اعتراضات سے فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ انا ارسلنک بالحق……………اصحب الجحیم۔ ہم نے تو آپ ﷺ کو حق وصداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اور احقاق حق کے واضح دلائل قائم فرمادیئے ہیں۔ اہل کتاب کے لئے پہلے سے ان کی کتب میں اور مشرکین کے لئے آپ ﷺ کی سیرت ، آپ کی صورت ، آپ کے معجزات ، آپ کی تعلیمات اور آپ کی پیشگوئیاں یہ سب اہل یقین کے لئے مشعل راہ ہیں۔ اب آپ ﷺ کا کام ماننے والوں کو بشارت و خوشخبری دینا اور منکرین ومعاندین کو انکار کے وبال سے آگاہ کرنا اور اس راہ کے خطرناک انجام یعنی دوزخ سے ڈرانا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی اس راہ پر چلتا ہے تو آپ کیوں ملول خاطر ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ ! کیا کرم ہے اللہ کا رسول ﷺ کافر کی ذات سے متنفر ہونے کی بجائے اسے مبتلائے کفر دیکھ کر اس کا دکھ محسوس فرماتا ہے کہ آخر اللہ کا بندہ تو ہے بےچارہ بھٹک گیا ہے اور ہمیشہ دوزخ میں جلے گا تو مومنین کے ساتھ کس قدر شفیق ہوگا اللہ ! اللہ ! فرمایا آپ کوئی اہل دوزخ کے متعلق جوابدہ تھوڑے ہی ہیں۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے وہ راہ اختیار کرتا ہے تو کرکے دیکھ لے۔ ولن ترضی………………ولا نصیر۔ کفار کے ساتھ مراسم : رہے یہودونصاریٰ اور ان کے ساتھ اتفاق و اتحاد ، تو یہ لوگ تب تک راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے دین اور ان کی رسومات کے تابع نہ ہوجائیں جو محال ہے تو پھر ان کا خوش رہنا بھی محال ہے یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں کے گہرے مراسم گمراہ فرقوں سے استوار ہیں۔ ان میں بھی کسی نہ کسی درجہ میں وہ گمراہی موجود ہے ورنہ حق اور باطل کا یکجا ہونا ممکن نہیں ، ہاں دنیا کے امور میں مثلاً تجارت ، ملازمت یا اس طرح کی باتیں یہ تو ہوسکتی ہیں مگر ایک دوسرے کی دعوتوں میں شرکت ، آپس میں دلی محبت تب ہی ہوگی جب کوئی وصف مشترک ہوگا۔ تو سیدھی بات تو یہ ہے کہ اگر ان کی طرف سے کوئی ارادہ کسی طرح ظاہر بھی ہو تو کہہ دیا جائے کہ صحیح اور درست راہ وہ ہے جو اللہ نے ارشاد فرمائی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اے مخاطب ! اگر تو علم قطعی اور وحی آجانے کے بعد بھی ان کے خرافات کو اپنائے تو پھر تجھے کوئی دوست یا مددگار اللہ کے سامنے نہیں ملے گا نیز اس کے مقابلے میں کسی کی بات کو کوئی وقعت نہ دی جائے۔ یہ تو اس حکم کی عظمت کا اظہار ہے کہ جب خطاب رسول اللہ ﷺ سے ہے تو آپ ﷺ سے تو اس کا سرزد ہونا محال اور اس پر غضب کا وارد ہونا کیا۔ مگر یوں سمجھ لو کہ جب دنیا میں کوئی آپ ﷺ جیسا نہیں تو پھر جو کوئی بھی کفار سے دوستی کی خاطر ان کی رسوم کو اپنائے گا اور ان کے کفر کی ترویج کے لئے چندے دے کر انہیں خوش کرے گا پھر اللہ کی گرفت کے وقت انہیں پکار کر دیکھ لے گا کہ کس قدر کام آتے ہیں یاد رہے یہ ذاتی تعلقات کی بات ہورہی ہے حکومت کی نہیں۔ حاکم پر بحیثیت رعایا ہونے کے سب کے حقوق ہوتے ہیں اسے کفار کے حقوق کی نگہداشت کرنی چاہیے۔ الذین اتینھم الکتاب………………ھم الخسرون۔ ہاں ان میں جو لوگ اس کتاب کو جو انہیں عطا ہوئی اس طرح پڑھتے ہیں کہ بجائے اس میں ترامیم کرنے کے اس سے راہنمائی حاصل کریں۔ حق تلاوۃ یعنی فہم سلیم سے حق و انصاف سے یہ تلاش کرتے ہیں کہ اللہ کی کتاب ہمیں کن امور سے منع فرماتی ہے اور کن امور کو اختیار کرنے کا حکم دیتی ہے تو ان کو ہدایت بھی نصیب ہوجاتی ہے اور وہ آپ ﷺ پر اور اللہ کی آخری کتاب پر بھی ایمان لے آتے ہیں۔ تلاوت کتاب کا طریقہ بھی یہ ہے کہ برکت حاصل کرنے اور دل کو منور کرنے کے لئے اس کے معانی پر غور کرے اور دل وجان سے اس کے احکام اپنائے۔ اگر محض اعتراضات کے لئے اور کج بحثی کے لئے پڑھتا بھی رہے تو کیا ہوگا انکار کردے گا۔ اور اس پر یقین نہ رکھے گا۔ تو ایسا کرنے والا کسی کا کچھ نہ بگاڑے گا بلکہ اپنی تباہی کا سبب بنے گا۔ اور خود کو ایمان کے اعلیٰ انعامات سے محروم کرکے ابدی نقصان میں مبتلا ہوگا۔
Top