Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 113
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰى شَیْءٍ١۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰى شَیْءٍ١ۙ وَّ هُمْ یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ١ۚ فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَقَالَتِ
: اور کہا
الْيَهُوْدُ
: یہود
لَيْسَتِ
: نہیں
النَّصَارٰى
: نصاری
عَلٰى
: پر
شَیْءٍ
: کسی چیز
وَقَالَتِ
: اور کہا
النَّصَارٰى
: نصاری
لَیْسَتِ
: نہیں
الْيَهُوْدُ
: یہود
عَلٰى
: پر
شَیْءٍ
: کسی چیز
وَهُمْ
: حالانکہ وہ
يَتْلُوْنَ
: پڑھتے ہیں
الْكِتَابَ
: کتاب
کَذٰلِکَ
: اسی طرح
قَالَ
: کہا
الَّذِیْنَ
: جو لوگ
لَا يَعْلَمُوْنَ
: علم نہیں رکھتے
مِثْلَ
: جیسی
قَوْلِهِمْ
: ان کی بات
فَاللّٰہُ
: سو اللہ
يَحْكُمُ
: فیصلہ کرے گا
بَيْنَهُمْ
: ان کے درمیان
يَوْمَ
: دن
الْقِيَامَةِ
: قیامت
فِیْمَا
: جس میں
کَانُوْا
: وہ تھے
فِیْهِ
: اس میں
يَخْتَلِفُوْنَ
: اختلاف کرتے
اور یہودکہتے ہیں نصاریٰ کے مذہب کی کوئی بنیاد نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں یہود کے مذہب کی کوئی بنیاد نہیں اور حالانکہ یہ (سب) لوگ (آسمانی) کتاب بھی پڑھتے ہیں یہی بات جاہل لوگ بھی انہی کی طرح کہتے ہیں تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں اللہ قیامت کے روز ان کے درمیان فیصلہ فرمادیں گے
آیات 113- 121 اسرارو معارف اب ان کا حال دیکھئے کہ یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ کا مذہب کوئی بنیاد ہی نہیں رکھتا انجیل کے کتاب اللہ ہونے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے نبی ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ ان کا دیکھا دیکھی نصاریٰ نے دین موسوی اور تورات کا انکار کردیا اور لگے کہنے یہ بےبنیاد نظریات ہیں حالانکہ دونوں اہل کتاب ہیں اور آسمانی کتب بنیادی عقائد کی یکساں تبلیغ کرتی ہیں اور توحید و رسالت ، آخرت حشر ونشر کے حقائق ایک سے بیان کرتی اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں تو اس طرح ان دونوں گروہوں نے گویا خود اپنی کتاب کا بھی انکار کردیا۔ اور انہی کی طرح جہلاء اور مشرکین کو بھی کتب الٰہیہ کے انکار کا موقع مل گیا اور انہوں نے دونوں کا انکار کردیا۔ اپنی بڑ ہانکنے لگے کہ جی اصل مذہب تو یہی بت پرستی ہے۔ بعثت خاتم النبیین ﷺ نے عقلی اور نقلی دلائل سے تو ہر طرح حق و باطل میں تمیز کردی ہے اور اس کے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ نئی کتاب۔ اب تو ایک ہی بات ہے کہ روز قیامت اللہ جل شانہ عملاً ان کے درمیان فیصلہ فرمادیں گے اور ان کے اختلافات حل ہوجائیں گے دنیا میں یہ حق پرستی کے جھوٹے مدعی یہ تک نہیں سوچتے کہ انہوں نے اللہ کے گھروں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ومن اظلم ممن منع مسجد اللہ………………ان اللہ واسع علیم۔ ان سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا کہ بت پرستوں نے خودنبی کریم ﷺ پر بیت اللہ کا داخلہ روک دیا۔ جب تک ان کا بس چلا وہ رکاوٹ بنے رہے ان یہود ونصاریٰ کے اسلاف کو دیکھو جس کو دوسری پر دائو چلا ، چڑھ دوڑا اور معبدو مساجد حتیٰ کہ بیت المقدس تک کو برباد کرنے اور اس کی توہین کرنے سے باز نہ رہے اور اب جبکہ اسلام دین حق ہے نہ صرف مساجد ان کے سجدوں سے خالی ہیں بلکہ یہ طرح طرح کے اعتراضات اور بےجا شبہات پیدا کرکے ان کو بھی راہ سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں جو مسجدوں کی آبادی کا سبب بنے ہوئے ہیں اور مساجد کی عظمت خود اس بات کی مقتضی ہے کہ جو شخص ان میں داخل ہو وہ اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر جانے اور اس عظمت پر ہیبت الٰہیہ طاری ہو۔ وہ لرزاں وترساں ادب واحترام سے حاضر ہو۔ جہاں تک مساجد کے ادب کا تعلق ہے تو دنیا کی تمام مساجد اس لحاظ سے مساوی ہیں اور کسی بھی مسجد کی بےحرمتی ایسا ہی ظلم ہے ، جیسے بیت اللہ یا مسجد نبوی ﷺ یا بیت المقدس کی اگرچہ ان تینوں مساجد کی عظمت اور خاص بزرگی اپنی جگہ مسلم۔ بیت اللہ میں ایک نماز ایک لاکھ نماز کا ثواب پاتی ہے اور مسجد نبوی اور بیت المقدس میں پچاس ہزار کا۔ نیز مسجد کی ویرانی کے یا وہاں پر نماز وذکر سے روکنے کے جتنے بھی طریقے ہیں سب ناجائز اور حرام ہیں جن میں سے کسی کو منع کرنا تو ایک ظاہر بات ہے۔ کبھی وہاں شور وغل کرکے یا پڑوس میں زور زور سے ریڈیو بجا کر لوگوں کی نمازوں میں خلل ڈالنا بلکہ اوقات نماز میں یا جب لوگ نوافل یا ذکر وغیرہ میں لگے ہوں تو بلند آواز میں تلاوت کرنا یا ذکر جہر بھی ممنوع ہے ہاں اگر عام نمازی نہ ہوں تو اور بات ہے۔ اسی طرح مسجد کی ویرانی کی جس قدر صورتیں ہیں سب ممنوع ہے صرف یہ کہ انہیں ڈھایا نہ جائے بلکہ کوئی ایسی صورت یا ایسا جھگڑا جو نمازیوں کو وہاں آنے سے روک دے یہی حکم رکھے گا نیز ان لوگوں کے لئے یہاں بہت بڑی تنبیہہ ہے جنہوں نے مساجد میں حاضری ہی چھوڑ دی ہے اگرچہ دوسرے لوگوں کو روک نہ رہے ہوں تو بھی خود حاضر نہ ہونا ویرانی ہی کا سبب ہے اور اللہ نے یہاں کفار کے اس دعویٰ کا جواب دیا ہے وہ اپنے جنتی ہونے پر قائم کرتے تھے کہ تمہیں مساجد میں تو قدم رکھنے نہیں دیتا جنت میں ضرور تمہاری ہی دعوت کا منتظر ہوگا ؟ یہاں حال یہ ہے کہ کسی سے نما زکا کہو تو کہتا ہے جی ! اللہ اپنے فضل سے ہی بخشے گا ہم نے نمازی بھی دیکھ رکھے ہیں ، بھئی ! نمازی اور بےنمازی میں ایک فرق تو ظاہر ہے کہ وہ پانچ وقت اللہ کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتا ہے اور دوسرے کو اللہ اپنے در پر نہیں آنے دیتا تو یہی اللہ کا فضل ہے کہ جب کسی پر مہربان ہوتا ہے تو توفیق اطاعت ارزاں فرما دیتا ہے ورنہ نافرمان ایک تو خود اطاعت نہ کرکے ظلم کررہا ہے دوسرے وہ کسی نہ کسی درجے میں مساجد کی ویرانی کا سبب بھی بن رہا ہے ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں ذلت ورسوائی اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے دنیا میں اگر اسے مال و دولت یا اولاد ملی بھی تو اس کی پریشانیاں بڑھائے گی اور اس کے لئے یہ بھی مصیبت بن کر رہے گی اور نہ ملی بھی تو اس طرح اخروی عذاب میں گرفتار ہوگا۔ وللہ المشرق…………واللہ واسع علیم۔ یہ جو انہیں بات مل گئی ہے کہ جی پہلے تو مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اور کعبے کی طرف کیوں پھرگئے کہ ابتدائً قبلہ بیت المقدس ہی تھا تقریباً سولہ ماہ مدنی زندگی میں ایسا ہی رہا حتیٰ کہ اللہ نے استقبال کعبہ کا حکم نازل فرمایا تو یہودونصاریٰ نے اس بات کو بہت ہوا دی کہ جی اگر نبی ہوتے تو شروع سے ایک قبلہ کیوں نہ مقرر کرلیتے۔ اب ان کی وہ نمازیں کیا ہوئیں ، جو بیت المقدس کو رخ کرکے ادا کیں۔ تو اللہ نے فرمایا یہ تو کمال اطاعت ہے کہ مسلمان نہ تو بیت المقدس کے پجاری ہیں نہ کعبہ کے۔ بلکہ یہ تو اللہ کی اطاعت گزار ہیں۔ بیت المقدس قبلہ مقرر فرمایا تو ادھر سجدہ ریز ، اور کعبۃ اللہ کی طرف حکم دیا تو ادھر حاضر۔ اور خود اللہ تعالیٰ نے تمام سمتوں کو محیط ہے وہ کسی خاص سمت یا مکان میں مقید نہیں بلکہ ہر سمت اور ہر مقام پر اس کا ظہور یکساں ہے۔ اور ہر جگہ موجود۔ ہاں وہ علیم ہے اور کئی حکمتوں کی وجہ سے کسی خاص سمت کی تعیین کی جاتی ہے مثلاً ایک سمت کی تعیین نے پورے عالم اسلام میں ایک گونہ تنظیم پیدا فرمادی۔ برخلاف اس کے کہ ایک جگہ چند نمازی جمع ہوتے تو ہر ایک کا منہ دوسری طرف ہوتا اور ایک افتراق کی شکل سامنے آتی اور اسی طرح کی اور بیشمار حکمتیں جنہیں اللہ بہتر جانتا ہے ورنہ تو اگر نمازی کی سمت معلوم نہ ہو اور تاریکی وغیرہ سے سمجھ نہ آتی ہو کوئی بتلانے والا بھی نہ ہو تو اپنے اندازے سے نماز پڑھ لے وہی سمت قبلہ ہوگی خواہ بعد میں پتہ بھی چل جئاے کہ غلط سمت کو پڑھ لی پھر بھی نماز ادا ہوجائے گی۔ اعادہ کی ضرورت نہیں اسی طرح فقہ میں جزئیات دیکھی جاسکتی ہیں جن سے استقبال قبلہ کے حکم شرعی کی حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے۔ وقالوا ات خدا للہ ولدا………………کن فیکون۔ ذرا ان کی دیانتداری ملاحظہ ہو کہ جن کتابوں کو یہ مانتے ہیں ان پر کس طرح اپنے ایجاد کردہ عقائد مسلط کر رکھے ہیں جیسے ہر کتاب نے تنزیہ باری بیان کیا ہے مگر یہ دونوں گروہ مدعی ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے یہود نے کہا عزیر ابن اللہ اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دیا حالانکہ اللہ تمام احتیاجات سے بالاتر ہے اور کوئی اس کا کسی طرح ہمسر نہیں جبکہ صاحب اولاد خود بہت سی احتیاجات میں مبتلا ہوتا ہے اور اولاد ایک ایسا سلسلہ ہے جو بیشمار قسم کے افکار میں جکڑا لیتا ہے جس کے لئے بیوی کی ضرورت ، رشتہ داروں کی ضرورت ، خانہ داری کی محتاجی اور خود بقائے نسل کی احتیاج موجود ہے حالانکہ اس کی ذات ان سے بالا تر ہے۔ پھر اولاد والد کے اوصاف لے کر آتی ہے انسان کا بچہ انسان اور حیوان کا بچہ حیوان بلکہ بھینس کا بچہ گائے نہیں ہوگا۔ اور نہ گائے بھینس جنے گی حتیٰ کہ درخت کا ننھا پودا اپنی قسم کے بڑے درخت کی خصوصیات ، پتے ، رنگ اور ذائقہ وغیرہ رکھتا ہوگا تو لا محالہ اگر اللہ کی اولاد ہوتی تو خدائی اوصاف رکھتی۔ پھر وہ پاک اور لاشریک نہ رہتا۔ یہ تو کئی خدا بن جاتے۔ چھوٹے سہی اختیارات میں کم سہی مگر ہوتے تو خدا ہی۔ حالانکہ ان کی کتابوں نے بھی اس کی تقدیس بیان کی ہے بلکہ جملہ کتب نے اعلان کیا ہے کہ اس کی ذات کے سوا جو کچھ ہے وہ اسی کی ملکیت ہے اور سب کچھ اور ہر کوئی اور ہر شے اس کے آگے دست بستہ حاضر ہے کسی کو رکھے یا مٹادے کسی میں مجال دم زون نہیں ہر شے اس نے نئے سرے سے پیدا کی ہے۔ وہ تھا ، اور کچھ نہیں تھا۔ ارض وسماء اس نے پیدا فرمائے۔ اس کی قدرت کامل اس کا اختیار غیر محدود ۔ اور اس کا حکم سب پر جاری ہے۔ اس کی ذات قدیم ، ازل اور ابدی ہے اسی طرح اس کی صفات قدیم ، ازلی اور ابدی ہیں اس کا علم جامع حضوری ہے اور زمانوں کی قید سے بالاتر۔ ماضی ہو یا مستقبل اس کے سامنے سب حاضر بلکہ وہ ایسا قادر ہے جب کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو وہ اسی کام کو کہتا ہے ہوجا ! اور وہ ہوجاتا ہے یعنی سب کچھ اس کے سامنے اس کے علم میں موجود اور حاضر ہے جو ہوچکا ہے جو ہورہا ہے جو ہونے والا ہے مخلوق کے لئے غیر موجود ہے مگر اس کے سامنے حاضر۔ وہ اسی کو حکم دیتا ہے کہ ” ہوجا “ اور وہ ہوجاتا ہے۔ عقیدہ بداء کی تردید : یہاں عقیدہ بداء کی تردید ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے خدا کی طرف ایسا بہتان منسوب کیا وہ ان متذکرہ فرقوں سے کسی طرح کم نہ رہے اور انہوں نے یہ جانا کہ معاذ اللہ ، اللہ کا حکم نامکمل ہے جب کچھ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ سامنے ہوتا ہے تب اللہ کو پتہ چلتا ہے کہ کیا ہوگیا۔ تو کیا کسی ایسی ہستی کو احتیاج سے پاک کہا جاسکتا ہے جو کرنا تو درکنار ، جاننے میں بھی محتاج ہو۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ یہ اس قدر گمراہی صرف اس لئے اپنانا پڑی کہ اس کے بغیر عظمت صحابہ ؓ کو تسلیم نہ کرنے کی کوئی راہ نہ تھی۔ تورات وانجیل میں ان کی تعریف کی گئی پھر مسلسل تئیس برس قرآن کریم نازل ہوتا رہا جس نے ہر پہلو سے ان کو مثال بندے قرار دیا اور رضائے الٰہی کے مظہر اور واجب الاتباع بتایا تو یار لوگوں کو ان چیزوں سے انکار کرنے کے لئے عقیدہ بداء کی ضرورت پڑی کہ پہلے تو ایسے ہی تھے مگر جب حضور نبی کریم ﷺ نے سفر آخرت فرمایا تو یہ بدل گئے اب وحی تو باقی نہیں اور اللہ کو بداء ہوگیا تھا ان کے اس وقت کے احوال سے آہ بیچارہ اللہ۔ ایسے بےبس اور مجبور کو اللہ بنانے کی کیا ضرورت ؟ تو یہ سب کیا ہے اقرار کے پردے میں کتاب اللہ کا انکار ہے ورنہ ان کی پہلی کتابوں نے اللہ کے محتاج ہونے کا انکار کیا ہے جو بنیاد ہے ایمان کی ، اس کے ساتھ ذرا ان کا سلوک دیکھئے یہ حال تو اہل کتاب کا ہے۔ رہے جہلا تو وہ ان سے بھی آگے نکل گئے۔ وقال الذین لا یعلمون………………لقوم یوقنون۔ وہ یوں کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا ہم پر کوئی نشانی اور دلیل نازل کیوں نہیں فرماتا۔ یہ جاہل اتنا نہیں جانتے کہ اگر دنیا میں سب انسانوں کو مکالمہ باری نصیب ہو تو میاں ! امتحان کیسا ؟ اور کہاں کا ابتلاء پھر سب اسی کے ہو رہیں اور کوئی اسکے در سے اٹھے ہی نہیں۔ دنیا میں یہ دولت صرف انبیاء کو نصیب ہوتی ہے اور وہبی طور پر ملتی ہے کہ کوئی انسان عبادت و ریاضت سے اس درجہ کو پا ہی نہیں سکتا۔ اور آخرت میں جس قدر انعامات اور نعمتیں رکھی ہیں ان سب سے اعلیٰ دیدار باری اور کلام باری ہی تو ہے۔ ارے بےوقوفو ! جنت تو جنت ہے میدان حشر میں عظمت باری دیکھ کر ہر کافر پکار اٹھے گا۔ اے اللہ ! ایک بار زندگی دنیا کو لوٹا دے اور پھر دیکھنا ہم کس قدر اطاعت کرتے ہیں۔ اگر یہ سب چیزیں ہر ایک پہ اب یہیں ظاہر ہوجائے تو پھر امتحان اور آزمائش چہ معنی دارد ، یہ اپنے کو انبیاء کا ہم پلہ جانتے ہیں ایسے ہی جاہلانہ اقوال ان سے پہلے کفار بھی کہا کرتے تھے اور عجب بات ہے کہ آج بھی جن اعتراضات کو جدید سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے ان کی چھان پھٹک کی جائے تو بات وہی ملتی ہے جو صدیوں سے کفار دہراتے چلے آرہے ہیں ان کی وجہ تشابھت قلوبھم ہے ان کے دلوں نے کفر اور بدکاری کی وجہ سے پہلے کافروں سے مشابہت پیدا کرلی ہے اسی لئے انہی جیسی باتیں بھی ان کے دلوں سے نکلتی ہیں۔ جب کوئی بدی کی راہ اپناتا ہے تو اسے شیطان سے ایک تعلق پیدا ہوتا ہے۔ نسبت کے کرشمے : پھر اس کو جوں جوں بڑھاتا ہے تو نوبت کفر تک پہنچتی ہے پھر کفر کے مدارج ہیں تو جس طرح کی نسبت کفر یہ پاتا ہے اس طرح کا جو کافر پہلے گزرا ہے اس جیسی باتیں دہراتا ہے اور ایک راہ یہ بھی ہے کہ جس طرح ہر مبارک کلمہ پر ایک خاص برکت اور رحمت متوجہ ہوتی ہے اسی طرح بڑے کافروں کے کفر یہ الفاظ پر ایک خاص درجہ کا غضب بھی بھڑکتا ہے تو شیطان کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کفار کے منہ سے وہ الفاظ کہلوائے جو بڑے بڑے کافروں نے کہے تھے تاکہ اس درجہ کے غضب الٰہی کا شکار ہوں۔ اسی طرح جو شخص نیکی کی طرف گامزن ہوتا ہے اسے نیک لوگوں سے ایک خصوصی تعلق نصیب ہوتا ہے جس کے درجے بھی مختلف ہیں فنانی الشیخ ، فنانی الرسول اور فنانی اللہ اسی راہ کی منازل میں جنہیں تمافی الرسول نصیب ہوتا ہے ان کے قلب کا ایک ربط اللہ رسول اللہ ﷺ سے پیدا ہوجاتا ہے اور ان کے منہ سے وہ باتیں جاری ہوتی ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمائی تھیں۔ وہ مولانا ظفر علی خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس شعر کا مصداق بنتے ہیں۔ انہی کا مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات ان کی انہی کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی میرا فقط ہاتھ چل رہا ہے انہی کا مطلب نکل رہا ہے انہی کا مضمون ، انہی کا کا غد ، قلم انہی کا ، دوات ان کی یہ اس لئے کہ تشابھت قلوبھم ان کے دل مشابہت پیدا کرلیتے ہیں۔ کفار کے اعتراضات اس وجہ سے نہیں کہ حق بیان کرنے میں کوئی کسر ہے بلکہ اس کی وجہ پہلے کفار سے ان کی باطنی نسبت ہے ورنہ تو ہم نے قدبین الایات ظاہر و باہر دلائل ارشاد فرمائے ہیں اور رسالت محمدیہ ﷺ اور حقانیت کتاب اللہ پر نہایت واضح دلیلیں موجود ہیں۔ مگر یہ ان لوگوں کو مفید ہے جو یقین و اطمینان کے طالب ہیں۔ معترضین کو کیا حاصل کچھ حاصل کرنے کے لئے طالب ہونا ضروری۔ اعتراضات سے فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ انا ارسلنک بالحق……………اصحب الجحیم۔ ہم نے تو آپ ﷺ کو حق وصداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اور احقاق حق کے واضح دلائل قائم فرمادیئے ہیں۔ اہل کتاب کے لئے پہلے سے ان کی کتب میں اور مشرکین کے لئے آپ ﷺ کی سیرت ، آپ کی صورت ، آپ کے معجزات ، آپ کی تعلیمات اور آپ کی پیشگوئیاں یہ سب اہل یقین کے لئے مشعل راہ ہیں۔ اب آپ ﷺ کا کام ماننے والوں کو بشارت و خوشخبری دینا اور منکرین ومعاندین کو انکار کے وبال سے آگاہ کرنا اور اس راہ کے خطرناک انجام یعنی دوزخ سے ڈرانا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی اس راہ پر چلتا ہے تو آپ کیوں ملول خاطر ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ ! کیا کرم ہے اللہ کا رسول ﷺ کافر کی ذات سے متنفر ہونے کی بجائے اسے مبتلائے کفر دیکھ کر اس کا دکھ محسوس فرماتا ہے کہ آخر اللہ کا بندہ تو ہے بےچارہ بھٹک گیا ہے اور ہمیشہ دوزخ میں جلے گا تو مومنین کے ساتھ کس قدر شفیق ہوگا اللہ ! اللہ ! فرمایا آپ کوئی اہل دوزخ کے متعلق جوابدہ تھوڑے ہی ہیں۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے وہ راہ اختیار کرتا ہے تو کرکے دیکھ لے۔ ولن ترضی………………ولا نصیر۔ کفار کے ساتھ مراسم : رہے یہودونصاریٰ اور ان کے ساتھ اتفاق و اتحاد ، تو یہ لوگ تب تک راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے دین اور ان کی رسومات کے تابع نہ ہوجائیں جو محال ہے تو پھر ان کا خوش رہنا بھی محال ہے یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں کے گہرے مراسم گمراہ فرقوں سے استوار ہیں۔ ان میں بھی کسی نہ کسی درجہ میں وہ گمراہی موجود ہے ورنہ حق اور باطل کا یکجا ہونا ممکن نہیں ، ہاں دنیا کے امور میں مثلاً تجارت ، ملازمت یا اس طرح کی باتیں یہ تو ہوسکتی ہیں مگر ایک دوسرے کی دعوتوں میں شرکت ، آپس میں دلی محبت تب ہی ہوگی جب کوئی وصف مشترک ہوگا۔ تو سیدھی بات تو یہ ہے کہ اگر ان کی طرف سے کوئی ارادہ کسی طرح ظاہر بھی ہو تو کہہ دیا جائے کہ صحیح اور درست راہ وہ ہے جو اللہ نے ارشاد فرمائی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اے مخاطب ! اگر تو علم قطعی اور وحی آجانے کے بعد بھی ان کے خرافات کو اپنائے تو پھر تجھے کوئی دوست یا مددگار اللہ کے سامنے نہیں ملے گا نیز اس کے مقابلے میں کسی کی بات کو کوئی وقعت نہ دی جائے۔ یہ تو اس حکم کی عظمت کا اظہار ہے کہ جب خطاب رسول اللہ ﷺ سے ہے تو آپ ﷺ سے تو اس کا سرزد ہونا محال اور اس پر غضب کا وارد ہونا کیا۔ مگر یوں سمجھ لو کہ جب دنیا میں کوئی آپ ﷺ جیسا نہیں تو پھر جو کوئی بھی کفار سے دوستی کی خاطر ان کی رسوم کو اپنائے گا اور ان کے کفر کی ترویج کے لئے چندے دے کر انہیں خوش کرے گا پھر اللہ کی گرفت کے وقت انہیں پکار کر دیکھ لے گا کہ کس قدر کام آتے ہیں یاد رہے یہ ذاتی تعلقات کی بات ہورہی ہے حکومت کی نہیں۔ حاکم پر بحیثیت رعایا ہونے کے سب کے حقوق ہوتے ہیں اسے کفار کے حقوق کی نگہداشت کرنی چاہیے۔ الذین اتینھم الکتاب………………ھم الخسرون۔ ہاں ان میں جو لوگ اس کتاب کو جو انہیں عطا ہوئی اس طرح پڑھتے ہیں کہ بجائے اس میں ترامیم کرنے کے اس سے راہنمائی حاصل کریں۔ حق تلاوۃ یعنی فہم سلیم سے حق و انصاف سے یہ تلاش کرتے ہیں کہ اللہ کی کتاب ہمیں کن امور سے منع فرماتی ہے اور کن امور کو اختیار کرنے کا حکم دیتی ہے تو ان کو ہدایت بھی نصیب ہوجاتی ہے اور وہ آپ ﷺ پر اور اللہ کی آخری کتاب پر بھی ایمان لے آتے ہیں۔ تلاوت کتاب کا طریقہ بھی یہ ہے کہ برکت حاصل کرنے اور دل کو منور کرنے کے لئے اس کے معانی پر غور کرے اور دل وجان سے اس کے احکام اپنائے۔ اگر محض اعتراضات کے لئے اور کج بحثی کے لئے پڑھتا بھی رہے تو کیا ہوگا انکار کردے گا۔ اور اس پر یقین نہ رکھے گا۔ تو ایسا کرنے والا کسی کا کچھ نہ بگاڑے گا بلکہ اپنی تباہی کا سبب بنے گا۔ اور خود کو ایمان کے اعلیٰ انعامات سے محروم کرکے ابدی نقصان میں مبتلا ہوگا۔
Top