Asrar-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 41
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوا : یاد کرو تم اللّٰهَ : اللہ ذِكْرًا : یاد كَثِيْرًا : بکثرت
اے ایمان والو ! اللہ کا ذکر بہت کثرت سے کرو
آیات 41 تا 52 اسرارومعارف ذکر اللہ کی تاکید : اے ایمان والو اللہ کا ذکر کثرت سے کرو اور صبح شام علی الدوام کرتے رہا کرو مناسب ہوگا کہ یہاں صاحب معارف القرآن کے مبارک الفاظ نقل کردیے جائیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ نے اپنے بندوں پر ذکر اللہ کے سوا کوئی ایسا فرض عائد نہیں کیا جس کی کوئی خاص حد مقرر نہ ہو نماز پانچ وقت کی اور ہر نماز کی رکعات متعین ہیں حج بھی خاص مقام پر خاصاعمال مقررہ کرنے کا نام ہے زکوۃ بھی سال میں ایک ہی مرتبہ فرض ہوئی مگر ذکر اللہ ایسی عبادت ہے کہ نہ اس کی کوئی حد اور تعداد متعین ہے نہ کوئی خاص وقت اور زمانہ مقرر ہے نہ اس کے لیے کوئی خاص ہیت قیام یا نشست مقرر ہے نہ اس کے لیے طاہر اور باوضو ہونا شرط ہے ہر وقت ہر حال میں ذکر بکثرت کرنے کا حکم ہے اس لیے اس کے ترک میں انسان کا کوئی عذر مسموع نہیں بجز اس کے کہ عقل و ھو اس ہی نہ رہیں بےہوش ہوجائیں اس کے علاوہ دوسری عبادات میں بیماری و مجبوری کے حالات میں انسان کو معذور قرار دے کر عبادت میں اختصار اور کمی یا معافی کی رخصتیں بھی دی ہیں مگر ذکر اللہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے کوئی شرط نہیں رکھی اس لیے اس کے ترک میں کوئی عذر مسموع نہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تم پر مسلسل رحمت فرماتا ہے اور اللہ کے فرشتے تمہارے حق میں مسلسل دعا کرتے ہیں تاکہ تم ظلمت یعنی اللہ کی دوری سے نکل کر نور اور قرب الہی میں آسکو اور اللہ ایمان والوں پہ بہت زیادہ مہربان ہے یعنی اس کی رحمت مسلسل برستی ہے سمیٹنے کے لیے ذرا دوام چاہیے۔ اور جب ایک دوسرے سے ملیں گے یا اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو سارا عالم پریشان ہوگا مگر ان لوگوں کو خود رب جلیل بھی السلام علیکم فرمائیں گے اور یہ ایک دوسرے کو بھی سلام کہیں گے اور ان کے لیے اللہ نے بہت خوبصور بدلہ تیار رکھا ہوا ہے یعنی صرف ان کے پہنچنے کی دیر ہے۔ آپ ﷺ کے اوصاف : اے نبی ہم نے آپ کو گواہ بنا کر بھیجا ہے کہ میدان حشر میں صرف وہ عمل مقبول ہوگا جس پر آپ گواہ ہوں گے کہ یہ میں نے کرنے کا حکم دیا تھا اور آپ کو وہ وسعت نظر بخشی ہے کہ نیکی کے انجام کی بشارت اور برائی کے نتیجہ کا بھیانک چہرہ آپ دوسروں پہ بیان کریں اور آپ کی شان ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دیں یعنی آپ کی سنت کے خلاف اگر دعوت ہوگی تو حق نہ ہوگی کہ یہ آپ ﷺ کا منصب ہے اور آپ کو روشن سورج فرمایا جو روشنی بکھیرتا ہے۔ سراج منیر : مفسرین کرام کے مطابق جس طرح دنیا کا سارا نظام سورج کی روشنی اور تپش سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا مومنین کے قلوب آپ کے قلب اطہر سے قیامت تک روشنی پاتے رہیں گے تمام انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں مگر آپ ﷺ صرف زندہ ہی نہیں اس وقت بھی اور قیامت تک کے لیے رسول ہیں اور فیض رسالت کا سورج روشن بھی ہے اور روشنی بکھیر بھی رہا ہے جو مومنین کے قلوب حاصل کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے تاقیام قیامت۔ اور جو جتنی محبت قلبی سے سرفراز ہوگا اتنے ہی انوارات پاتا رہے گا۔ آپ مومنین کو جن کے قلوب روشن منور اور ذاکر ہیں یہ خوش خبری دیجیے کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بہت بڑی اور عظیم و کبیر عزت و عظمت ہے۔ اور کفار کی باتوں کی کچھ پرواہ مت کیجیے۔ جو ایذا وہ پہنچانا چاہتے ہیں گستاخی کرکے پہنچا لینے دیجیے آپ اللہ پر بھروسہ رکھیے اور اللہ بہترین کارساز و وکیل ہے آپ کی طرف سے بھگت لے گا اور جہاں تک نکاح و طلاق کی بات ہے تو یہ زندگی کا حصہ ہے لہذا اگر تم لوگوں کو ایسی حالت میں طلاق دینے کی نوبت آئے کہ عورت سے نکاح کے بعد خلوت نہ ہوئی ہو تو ان پر کوئی عدت نہیں ۔ یعنی وہ تین حیض کا عرصہ جو طلاق کے بعد عورت کو خاوند کے گھر گزارنا اور خاوند کو اخراجات برداشت کرنا ہوتے ہیں کہ نسب کی تحقیق رہے یہاں اس کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں کچھ نہ کچھ ضرور دے دو کم از کم وہ لباس جو ضروری استعمال ہوتا ہے کہ احسان رہے۔ متعہ : یہاں خلوت ثابت نہیں مگر کچھ بطور احسان دینے کو متعہ سے تعبیر فرمایا اور روافض نے اسے بدکاری کی اجرت بنا لیا۔ اور اچھے طریقے سے رخصت کردو کہ طلاق اچھی بات نہیں لیکن اگر بڑے فساد کو مٹانے کے لیے ضروری ہو تو پھر انداز ایسا ہو کہ نیا فساد نہ کھڑا کردے۔ اے نبی آپ کے لیے وہ بیویاں حلال ہیں جن کا آپ مہر اد اکر چکے ہیں یعنی جو آپ کے نکاح میں موجود ہیں کہ اس وقت آپ کے نکاح میں چار سے زیادہ خواتین تھیں جبکہ عام مومن چار سے زیادہ نہیں رکھ سکتا۔ دوسری خصوصیت کہ جو آپ کی ملکیت اور لونڈیاں ہیں ان میں خصوصیت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی ملکیت پا لونڈی پھر کسی دوسرے پر حلال نہیں۔ یا اللہ نے فرمایا جو فئی ہے (وہ خادمہ یا لونڈی جو آپ کو کسی نے تحفہ ارسال کی ہو) وہ بھی خاص آپ کے لیے ہے آپ کے بعد کسی دوسرے پر ھلال نہ ہوگی۔ اور چچا پھوپھی ماموں یا خالہ زاد وہ خواتین جنہوں نے ہجرت کی ان سے آپ چاہیں تو نکاح فرما سکتے ہیں جو ہجرت نہیں کرسکیں ان سے آپ کو نکاح کرنے کی اجازت نہیں یہ آپ کی خصوصیت ہے اور وہ خاتون امت میں سے جو بغیر مہر کے آپ سے نکاح کرنا چاہے تو درست ہے اور کسی کا نکاح بغیر مہر کے نہ ہوگا بلکہ نکاح کرنے پر شرعی مہر واجب ہوجائے گا اور اللہ کو علم ہے جو اس نے سب پر عورتوں کے معاملہ میں مقرر کردیا اور جو حکم کنیزوں کے حق میں ویا اور آپ پر بھی کہ آپ کے لیے مشکلات اور تنگی کا باعث نہ بن سکے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے نیز یہ بھی آپ کی خصوصیت ہے کہ جس بیوی کو چاہیں قریب کریں یا کسی کو پیچھے رکھیں عام مومنین کے خلاف کہ ان کے لیے تمام بیویوں میں ہر طرح کے سلوک میں برابری شرط ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ آپ جس زوجہ پر کرم فرمائیں اسے دلی مسرت ہو اور وہ اپنا حق نہ سمجھے آپ کا احسان سمجھے اور انہیں کوئی دکھ نہ ہو بلکہ جسے آپ جو عطا کردیں سب کو خوشی ہو کہ اللہ تو دلوں کے بھید جانتا ہے یعنی اگر یہ سب ان کے حقوق ہوں تو بظاہر خاموش بھی رہیں گی تو دل میں بات آجائے گی جو فیض رسالت سے مانع بن جائے گی۔ لہذا اللہ نے آپ پر احسان بتا کر انہیں خوشی کا موقع بھی بخشا اور امتحان سے محفوظ بھی کردیا کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے علم والا ہے۔ اور اپ کی ازواج کو اللہ نے یہ عظمت بخشی ہے کہ آپ ان کو طلاق دے کر کوئی دوسری خاتون لانا چاہیں خواہ اس کا حسن آپ کو پسند بھی ہو تو اس کی اجازت نہیں سوائے آپ کی ملکیت باندیوں کے اور اللہ ہر شے پر محافظ اور نگہبان ہے۔ بارگاہ نبوی اور تعداد ازواج : اس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں دوسری کتب میں اور مختصرا معارف القرآن میں دیکھی جاسکتی ہے صرف ایک بات عرض کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ کا نکاح پچیس برس کی عمر میں حضرت خدیجہ ؓ سے ہوا اور پچاس برس کی عمر تک آپ ﷺ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔ ان کی وفات پر حضرت عائشہ ؓ سے ہوا اور اس کے بعد سب خواتین ریاست اسلامی کی فلاح اور قبائل کے ایمان کا باعث بنتی گئیں۔ جہاں تک باندیوں کا معاملہ ہے تو یہ اعزاز صرف اسلام کو حاصل ہے کہ مفتوحہ خواتین کو ایک وقت میں ایک مسلم رکھ سکتا ہے اور اس کی بھی کڑی شرائط اور ان کے حقوق ہیں جبکہ اعتراض کرنے والی اقوام کا کردار اس بارہ میں بہت بھیانک ہے۔
Top