Asrar-ut-Tanzil - An-Najm : 26
وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُهُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَرْضٰى
وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ : اور کتنے ہی فرشتے ہیں فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں لَا : نہ تُغْنِيْ شَفَاعَتُهُمْ : کام آئے گی ان کی سفارش شَيْئًا : کچھ بھی اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ : مگر اس کے بعد اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ : کہ اجازت دے اللہ لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کے لیے چاہے وَيَرْضٰى : اور وہ راضی ہوجائے
اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں موجود ہیں ، ان کی سفارش ذرا بھی کام نہیں آسکتی مگر اس کے بعد کہ اللہ جس کے لئے چاہیں ، اجازت دیں اور پسند فرمائیں
آیات 26 تا 32۔ اسرار ومعارف۔ ان کی رسومات اور معبودان باطلہ کیا سفارش کریں گے جبکہ وہ بارگاہ بہت عالی ہے اور کس قدر مقبولان بارگاہ فرشتے ہیں جو شفاعت نہیں کرسکتے ہاں خود اللہ کسی پر راضی ہوجائیں اور فرشتوں کو اس کی سفارش کی اجازت مرحمت فرمادیں کہ یہ بھی ایک انداز رضا وعطا ہے ورنہ کوئی بھی کسی حیلے بہانے یازورطاقت سے وہاں دم نہیں مارسکتا۔ کفار کا یہ حال ہے کہ یہ سرے سے آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتے لہذا جو ایمان نہیں رکھتا وہ آخرت کے لیے کوئی عمل بھی نہیں کرتا تو اسے وہاں بہتری کی کوئی امید نہیں ہوسکتی ، اور اپنی خرافات میں یہاں تک بڑھے کہ ملائکہ کو مونث پکارتے ہیں جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے یعنی جن سے اگر کوئی شفاعت کی امید رکھتے بھی ہیں اگرچہ بوجہ انکار آخرت خود ان میں وہ استطاعت نہیں کہ کوئی ان کی سفارش کرسکے اس کے باوجود یہ کم ازکم ملائکہ کی ذات کو جانتے تو ہوتے یہاں تو یہ بات بھی نہیں انہیں عورتیں سمجھ رکھا ہے محض اپنے زعم باطل سے اور اپنے اوہام باطلہ کی پیروی میں حالانکہ یہ حقیقت واضح ہے کہ وہم و گمان سے حقیقت وصداقت کبھی تبدیل نہیں ہوا کرتی۔ ظن کا لغوی معنی اور اصطلاح شرعیت۔ ظن کا لغوی معنی بےبنیاد خیالات ہے اور یہاں وہی مراد بھی ہے اصطلاح شریعت میں دو طرح کے احکام ہیں اول قرآن کریم یا احادیث متواترہ سے حاصل شدہ بات ایسے احکام کو قطعیات یایقینیات کہا جاتا ہے اس کے مقابل عام روایات حدیث جو ثبوت کے اس درجہ کو نہ پہنچی ہوں ان سے ثابت شدہ مسائل کو ظنیات کہا جاتا ہے یہ ظن شرعی اعتبار سے اور قرآن وحدیث کے دلائل کی روشنی میں معبتر ہے آیہ مذکورہ میں پہلی قسم مراد ہے یعنی بےبنیاد خیالات ۔ آپ ایسے لوگوں سے قطعی طور پر توجہ ہٹالیجئے اور انہیں چھوڑ دیجئے جن لوگوں نے محض حصول دنیا اور مادی فوائد کی طلب میں ہماری یاد ہی سے منہ موڑ لیا ان بدنصیبوں کی ساری علم و دانش کی رسائی بس حصول دنیا تک ہے۔ نبی اکرم سے حصول برکات کا سلیقہ اور راستہ۔ آیہ مبارکہ میں عموم ہے اگرچہ یہ بات کفار کے اوصاف میں فرمائی جارہی ہے مگر جو بھی شخص یہ انداز اختیار کرے گا کہ وہ محض حصول دنیا کے لیے عمر کھپادے اور کبھی یاد الٰہی یا اتباع رسالت پناہی کا خیال نہ آئے تو وہ بھی اسی وعید کا مستحق ٹھہرے گا اس کی روشنی میں مسلمان کا حال عہد حاضر میں دیکھاجائے گا تو یہ نظرآتا ہے کہ حکومتی اداروں کے سارے وسائل صرف اور صرف مادی تعلیم اور مادی فوائد کے حصول کا طریقہ سکھانے پہ لگے ہیں اور لوگ بھی اپنی پوری محنت و کوشش صرف دنیا کے حصول پر لگائے بیٹھے ہیں حتی کہ نعت بھی پڑھیں گے تو اس میں دنیا کی طلب ہوگی اور نعت لکھنے والابھی نہ عملا اطاعت گزار ہوگا اور نہ نعت میں اطاعت گزاری کی بات ہی کرے گا ، الاماشاء اللہ ، بلکہ ہندوشعراء کی نعتیں میں نے آج کے اکثر مسلمان شعراء سے بہتر پائیں۔ یہاں یہ نہ سمجھاجائے کہ دنیا کے علوم حاصل نہ کیے جائیں ضرور کیے جائیں مگر ساتھ دین بھی سیکھاجائے اور دین کے احکام کے تابع دنیا کمانا بھی دین ہے ہاں دین کو قربان کرکے اور دین کو رسوا کرکے دنیا کا حصول کافرانہ فعل ہی نہیں ایساجرم بھی ہے جس کے سبب نبی (علیہ السلام) ایسے لوگوں سے رخ انور پھیر لیتے ہیں اور وہ دوعالم میں کہیں پناہ نہیں پاتا۔۔۔ بیٹھے کون دے ہے پھر اس کو ، جوتیرے آستان سے اٹھتا ہے ، نیز آپ کا پروردگار ہر طرح سے خوب جانتا ہے کہ کون شخص سیدھی راہ کو چھوڑ بیٹھا ہے اور محض دنیا طلبی کے لیے اپنی ساری توانائی وقف کیے ہوئے ہے اور ان لوگوں کے حال سے بھی واقف ہے جو ہدایت کی راہ پر ہیں کہ انہیں دنیا بھی اللہ ورسول کی اطاعت کی راہ سے درکار ہے اور جو بھی جس طرح کے اعمال کررہا ہے وہ اس کا بدلہ پائے گا کہ اللہ کے قبضہ قدرت میں یہ ارض وسما کا نظام اس بات کا متقاضی ہے کہ بدکار اور نافرمانوں کو کفروبرائی کا مزہ چکھایاجائے اور کیے کی سزا پائیں جبکہ اطاعت اور نیکی کرنے والوں پر کرم کی بارش ہو اور انہیں بہترین اجر سے نوازاجائے گا۔ ایسے لوگوں جو بڑے بڑے گناہوں کے قریب نہیں پھٹکتے اور بےحیائی کے کاموں اور فحش کلامی سے اجتناب کرتے ہیں سوائے اس کے کہ بتقاضائے بشریت کوئی خطا کربیٹھیں۔ لمم۔ مفسرین کرام کے مطابق ، لمم ، وہ گناہ ہے جو انسان سے اتفاقا سرزد ہوجائے مگر وہ اس پہ نادم ہو اور توبہ کرلے پھر اس کے قریب نہ پھٹکے اکثر روایات کا حاصل یہ ہے کہ کسی نیک آدمی سے کبھی گناہ کبیرہ سرزد ہوگیا اور اس نے توبہ کرلی تو وہ صالحین کی فہرست سے خارج نہ ہوگا کہ آپ کا پروردگار بہت ہی وسیع بخشش رکھنے والا ہے۔ اور اس کے کرم کی بھی حد نہیں نیز نیکی کرنے والے کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ اس کے حال سے تب بھی واقف تھا جب وہ محض خاکی ذرات تھا پھر اس نے وہ ذرات جمع کرکے غذانطفہ اور پھر انسان بنادیا اور ماں کے پیٹ میں بنایا جبکہ وہ اپنے حال سے واقف نہ تھا اللہ اس کو بنارہا تھا۔ اور اس سے خوب واقف تھا پھر اسے تمام خوبیاں عقل و شعور فکر ونظر قوت و طاقت اعضا جوارح عطا فرمائے کہ وہ اطاعت اور نیکی کرنے کے قابل ہوا لہذا کسی کو اپنے تقدس پہ ناز نہ کرنا چاہیے ، اور توفیق عمل کو اللہ رب العزت کا احسان ماننا چاہیے کہ یہ بات بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ کون کس قدر متقی ہے کہ تقوی محض اعمال ظاہر ہی نہیں ایک کیفیت قلبی ہے وہ بھی تب کام آئے گی جب موت اور قبر تک ساتھ رہی اور یہ سب صرف اللہ جانتا ہے۔
Top